‌صحيح البخاري - حدیث 905

كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ وَقْتُ الجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنَّا نُبَكِّرُ بِالْجُمُعَةِ وَنَقِيلُ بَعْدَ الْجُمُعَةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 905

کتاب: جمعہ کے بیان میں باب: جمعہ کا وقت کب شروع ہوگا ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں حمید طویل نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے خبر دی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم جمعہ سویرے پڑھ لیا کرتے اور جمعہ کے بعد آرام کرتے تھے۔
تشریح : امام بخاری نے وہی مذہب اختیار کیا جو جمہور کا ہے کہ جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے کیونکہ وہ ظہر کا قائم مقام ہے بعض احادیث سے جمعہ قبل الزوال بھی جائز معلوم ہوتا ہے یہاں لفظ نبکر بالجمعۃ یعنی صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جایا کرتے تھے ( اس سے قبل الزوال کے لیے گنجائش نکلتی ہے ) اس کے بارے میں علامہ امام شوکانی مرحوم فرماتے ہیں۔ ظاھر ذلک انھم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النھار قال الحافظ لکن طریق الجمع اولیٰ من دعوی التعارض وقد تقرر ان التبکیر یطلق علی فعل الشئی فی اول وقتہ او تقدیمہ علی غیرہ وھو المراد ھھنا المعنی انھم کانوا یبدؤن بالصلوۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتھم فی صلوۃ الظھر فی الحر فانھم کانوا یقیلون ثم یصلون لمشروعیۃ الابراد۔ یعنی حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمعہ اول دن میں ادا کر لیا کر تے تھے۔ حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ ہر دو احادیث میں تعارض پیدا کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ان میں تطبیق دی جائے۔ یہ امر محقق ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کا اوّل وقت میں کرنے پر بولا جاتا ہے یا اس کا غیر پر مقدم کرنا۔ یہاں یہی مراد ہے معنی یہ ہواکہ وہ قیلولہ سے قبل جمعہ کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے بخلاف ظہر کے کیونکہ گرمیوں میں ان کی عادت یہ تھی کہ پہلے قیلولہ کرتے پھر ظہر کی نماز ادا کرتے تا کہ ٹھنڈا وقت کرنے کی مشروعیت پر عمل ہو۔ مگر لفظ حین تمیل الشمس ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے پر جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے ) پر علامہ شوکانی فرماتے ہیں فیہ اشعار بمواظبتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صلوۃ الجمعۃ اذا زالت الشمس یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ زوال شمس کے بعد نماز جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے امام بخاری اور جمہور کا مسلک یہی ہے، اگر چہ بعض صحابہ اور سلف سے زوال سے پہلے بھی جمعہ کا جواز منقول ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ترجیح اسی مسلک کو حاصل ہے۔ ایسا ہی علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں والظاھر المعول علیہ ھو ما ذھب الیہ الجمھور من انہ لا تجوز الجمعۃ الا بعد زوال الشمس واماما ذھب الیہ بعضھم من انھا تجوز قبل الزوال فلیس فیہ حدیث صحیح صریح واللہ اعلم ( تحفۃ الاحوذی ) امام بخاری نے وہی مذہب اختیار کیا جو جمہور کا ہے کہ جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے کیونکہ وہ ظہر کا قائم مقام ہے بعض احادیث سے جمعہ قبل الزوال بھی جائز معلوم ہوتا ہے یہاں لفظ نبکر بالجمعۃ یعنی صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جایا کرتے تھے ( اس سے قبل الزوال کے لیے گنجائش نکلتی ہے ) اس کے بارے میں علامہ امام شوکانی مرحوم فرماتے ہیں۔ ظاھر ذلک انھم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النھار قال الحافظ لکن طریق الجمع اولیٰ من دعوی التعارض وقد تقرر ان التبکیر یطلق علی فعل الشئی فی اول وقتہ او تقدیمہ علی غیرہ وھو المراد ھھنا المعنی انھم کانوا یبدؤن بالصلوۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتھم فی صلوۃ الظھر فی الحر فانھم کانوا یقیلون ثم یصلون لمشروعیۃ الابراد۔ یعنی حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمعہ اول دن میں ادا کر لیا کر تے تھے۔ حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ ہر دو احادیث میں تعارض پیدا کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ان میں تطبیق دی جائے۔ یہ امر محقق ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کا اوّل وقت میں کرنے پر بولا جاتا ہے یا اس کا غیر پر مقدم کرنا۔ یہاں یہی مراد ہے معنی یہ ہواکہ وہ قیلولہ سے قبل جمعہ کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے بخلاف ظہر کے کیونکہ گرمیوں میں ان کی عادت یہ تھی کہ پہلے قیلولہ کرتے پھر ظہر کی نماز ادا کرتے تا کہ ٹھنڈا وقت کرنے کی مشروعیت پر عمل ہو۔ مگر لفظ حین تمیل الشمس ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے پر جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے ) پر علامہ شوکانی فرماتے ہیں فیہ اشعار بمواظبتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صلوۃ الجمعۃ اذا زالت الشمس یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ زوال شمس کے بعد نماز جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے امام بخاری اور جمہور کا مسلک یہی ہے، اگر چہ بعض صحابہ اور سلف سے زوال سے پہلے بھی جمعہ کا جواز منقول ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ترجیح اسی مسلک کو حاصل ہے۔ ایسا ہی علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں والظاھر المعول علیہ ھو ما ذھب الیہ الجمھور من انہ لا تجوز الجمعۃ الا بعد زوال الشمس واماما ذھب الیہ بعضھم من انھا تجوز قبل الزوال فلیس فیہ حدیث صحیح صریح واللہ اعلم ( تحفۃ الاحوذی )