كِتَابُ العِلْمِ بَابُ الغَضَبِ فِي المَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ، إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لاَ أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلاَةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلاَنٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ، فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ المَرِيضَ، وَالضَّعِيفَ، وَذَا الحَاجَةِ»
کتاب: علم کے بیان میں
باب:اس بیان میں کہ استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انھیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ( حزم بن ابی کعب ) نے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر ) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص ( معاذ بن جبل ) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں ( جماعت کی ) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا ( کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرات سننے کی طاقت نہیں رکھتا ) ( ابومسعود راوی کہتے ہیں ) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم ( ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے ) نفرت دلانے لگے ہو۔ ( سن لو ) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے ( سب ہی قسم کے لوگ ) ہوتے ہیں۔
تشریح :
غصہ کا سبب یہ کہ آپ پہلے بھی منع کرچکے ہوں گے دوسرے ایسا کرنے سے ڈر تھا کہ کہیں لوگ تھک ہار کر اس دین سے نفرت نہ کرنے لگ جائیں۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔
غصہ کا سبب یہ کہ آپ پہلے بھی منع کرچکے ہوں گے دوسرے ایسا کرنے سے ڈر تھا کہ کہیں لوگ تھک ہار کر اس دین سے نفرت نہ کرنے لگ جائیں۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔