‌صحيح البخاري - حدیث 893

كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ الجُمُعَةِ فِي القُرَى وَالمُدُنِ صحيح حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَزَادَ اللَّيْثُ قَالَ يُونُسُ كَتَبَ رُزَيْقُ بْنُ حُكَيْمٍ إِلَى ابْنِ شِهَابٍ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَئِذٍ بِوَادِي الْقُرَى هَلْ تَرَى أَنْ أُجَمِّعَ وَرُزَيْقٌ عَامِلٌ عَلَى أَرْضٍ يَعْمَلُهَا وَفِيهَا جَمَاعَةٌ مِنْ السُّودَانِ وَغَيْرِهِمْ وَرُزَيْقٌ يَوْمَئِذٍ عَلَى أَيْلَةَ فَكَتَبَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَنَا أَسْمَعُ يَأْمُرُهُ أَنْ يُجَمِّعَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سَالِمًا حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 893

کتاب: جمعہ کے بیان میں باب: گاؤں اور شہر دونوں جگہ جمعہ درست ہے ہم سے بشر بن محمد مروزی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ نے ا بن عمر سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور لیث نے اس میں یہ زیادتی کی کہ یونس نے بیان کیا کہ رزیق بن حکیم نے ا بن شہاب کو لکھا، ان دنوں میں بھی وادی القریٰ میں ا بن شہاب کے پاس تھا کہ کیا میں جمعہ پڑھا سکتا ہوں۔ رزیق ( ایلہ کے اطراف میں ) ایک زمین کاشت کروا رہے تھے۔ وہاں حبشہ وغیرہ کے کچھ لوگ موجود تھے۔ اس زمانہ میں رزیق ایلہ میں ( حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے ) حاکم تھے۔ ا بن شہاب رحمہ اللہ نے انہیں لکھوایا، میں وہیں سن رہا تھا کہ رزیق جمعہ پڑھائیں۔ ا بن شہاب رزیق کو یہ خبر دے رہے تھے کہ سالم نے ان سے حدیث بیان کی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔
تشریح : مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا رد فرمایا ہے جو جمعہ کی صحت کے لیے شہر اور حاکم وغیرہ وغیرہ کی قیود لگاتے ہیں اور گاؤں میں جمعہ کے لیے انکار کرتے ہیں۔ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب شارح بخاری فرماتے ہیں کہ اس سے امام بخاری نے ان لوگوں کا رد کیا جو جمعہ کے لیے شہر کی قید کرتے ہیں۔ اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ جمعہ کی شرطیں جو حنفیوں نے لگائی ہیں وہ سب بے دلیل ہیں اور جمعہ دوسری نمازوں کی طرح ہے صرف جماعت اس میں شرط ہے یعنی امام کے سوا ایک آدمی اور ہونا اور نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا سنت ہے باقی کوئی شرط نہیں ہے۔ دارالحرب اور کافروں کے ملک میں بھی حضرت امام نے باب میں لفظ قریٰ اور مدن استعمال فرمایا ہے قریٰ قریۃ کی جمع ہے جو عموماً گاؤں ہی پربولا جاتا ہے اور مدن مدینہ کی جمع ہے جس کا اطلاق شہر پر ہوتا ہے۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی خلاف من خص الجمعۃ بالمدن دون القریٰ یعنی باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے خلاف اشارہ فرمایا ہے جو جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہات میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں۔ آپ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ عبد القیس نامی قبیلہ کی مسجد میں قائم کیا گیا جو جواثی نامی گاؤں میں تھی اور وہ گاؤں علاقہ بحرین میں واقع تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ جمعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہی سے قائم کیا گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیروہ کوئی کام کر سکیں۔ جواثی اس وقت ایک گاؤں تھا۔ مگر حنفی حضرات فرماتے ہیں کہ وہ شہر تھا حالانکہ حدیث مذکورسے اس کا گاؤں ہونا ظاہر ہے جیسا کہ وکیع کی روایت میں صاف موجود ہے۔ انھا قریۃ من قریٰ البحرین یعنی جواثی بحرین کے دیہا ت میں ایک گاؤں تھا۔ بعض روایتوں میں قریٰ عبدالقیس بھی آیا ہے کہ وہ قبیلہ عبد القیس کا ایک گاؤں تھا ( قسطلانی ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بعد میں اس کی آبادی بڑھ گئی ہو اوروہ شہر ہوگیا ہو مگر اقامت جمعہ کے وقت وہ گاؤں ہی تھا۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے مزید وضاحت کے لیے حضرت ابن شہاب کا فرمان ذکر فرمایا کہ انہوں نے رزیق نامی ایک بزرگ کو جو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرف سے ایلہ کے گورنر تھے اور ایک گاؤں میں جہاں ان کی زمینداری تھی، سکونت پذیر تھے ان کو اس گاؤں میں جمعہ قائم کرنے کے لیے اجازت نامہ تحریر فرمایا۔ امام قسطلانی فرماتے ہیں واملاہ ابن شھاب من کاتبہ فسمعہ یونس منہ یعنی ابن شہاب زہری نے اپنے کاتب سے اس اجازت نامے کو لکھوایا اور یونس نے ان سے اس وقت اسے سنا۔ اور ابن شہاب نے یہ حدیث پیش کر کے ان کو بتلایا کہ وہ گاؤں اور دیہات ہی میں ہے لیکن ان کو جمعہ پڑھنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی رعایا کے جو وہاں رہتی ہے، اس طرح اپنے نوکر چاکروں کے نگہبان ہیں جیسے بادشاہ نگہبان ہوتا ہے تو بادشاہ کی طرح ان کو بھی احکام شرعیہ قائم کرناچاہیے جن میں سے ایک اقامت جمعہ بھی ہے۔ ابن شہاب زہری وادی قری میں تھے جو مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 7 ھ بماہ جمادی الاخریٰ میں فتح کیاتھا۔ فتح الباری میں ہے کہ زین بن منیر نے کہا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ بادشاہ کی اجازت کے بغیر بھی منعقد ہوجاتا ہے۔ جب کوئی جمعہ قائم کے نے کے قابل امام خطیب وہاں ہو اور موجود ہو اور اس سے گاؤں میں بھی جمعہ کا صحیح ہونا ثابت ہوا۔ گاؤں میں جمعہ کی صحت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرآن پاک کی آیت کریمہ ہے جس میں فرمایا یٰا ٓیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُوا اِذَا نُودِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَۃِ فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ وَذَرُوا البَیعَ الآیہ ( الجمعہ: 9 ) یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کو یاد کرنے کے لیے چلو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ اس آیت کریمہ میں “ایمان والے” عام ہیں وہ شہری ہوں یا دیہاتی سب اس میں داخل ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الااربعۃ عبد مملوک اوامراۃ اوصبی او مریض ( رواہ ابو داؤد والحاکم ) یعنی جمعہ ہر مسلمان پر حق اور واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ ادا کرے مگر غلام، عورت،بچے اور مریض پر جمعہ فرض نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے :من کان یومن باللہ والیوم الاخر فعلیہ الجمعۃ الامریض اومسافر او امراۃ اوصبی او مملوک فمن استغنی بلھو او تجارۃ اسغنی اللہ عنہ واللہ غنی حمید ( رواہ الدارقطنی ) یعنی جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس پر جمعہ فرض ہے مگر مریض مسافر غلام اوربچے اور عورت پر جمعہ فرض نہیں ہے پس جو کوئی کھیل تماشہ یا تجارت کی وجہ سے بے پروائی کرے تو اللہ پاک بھی اس سے بے پروائی کرے گا کیونکہ اللہ بے نیاز اور محمود ہے۔ آیت شریفہ میں خرید وفروخت کے ذکر سے بعض دماغوں نے جمعہ کے لیے شہر ہونا نکالا ہے حالانکہ یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ آیت شریفہ میں خرید وفروخت کا اس لیے ذکر آیا کہ نزول آیت کے وقت ایسا واقعہ پیش آیا تھا کہ مسلمان ایک تجارتی قافلہ کے آ جانے سے جمعہ چھوڑ کر خرید وفروخت کے لیے دوڑ پڑے تھے۔ اس لیے آیت میں خرید وفروخت چھوڑ نے کا ذکر آ گیا اور اگر اس کو اسی طرح مان لیا جائے تو کون سا گاؤں آج ایسا ہے جہاں کم وبیش خرید وفروخت کا سلسلہ جاری نہ رہتا ہو پس اس آیت سے جمعہ کے لیے شہر کا خاص کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ کوئی ڈوبنے والا تنکے کا سہارا حاصل کرے۔ ایک حدیث میں صاف گاؤں کا لفظ موجود ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ فیھا امام وان لم یکونوا الاربعۃ رواہ الدارقطنی ص: 26 یعنی ہر ایسے گاؤں والوں پر جس میں نماز پڑھا نے والا امام موجود ہو جمعہ واجب ہے اگرچہ چار ہی آدمی ہوں۔ یہ روایت گو قدرے کمزور ہے مگر پہلی روایتوں کی تائید وتقویت اسے حاصل ہے۔ لہذا اس سے بھی استدلال درست ہے اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو صحت جمعہ کے لیے کم از کم چالیس آدمیوں کا ہونا شرط قرار دیتے ہیں۔ اکابرصحابہ سے بھی گاؤں میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ “تم جہاں کہیں ہو جمعہ پڑھ لیا کرو” عطاءبن میمون ابو رافع سے روایت کرتے ہیں کہ ان ابا ھریرۃ کتب الی عمر یسالہ عن الجمعۃ وھو بالبحرین فکتب الیھم ان جمعوا حیث ما کنتم اخرجہ ابن خزیمۃ وصححہ وابن ابی شیبۃ والبیھقی وقال ھذا الا ثر اسنادہ حسن فتح الباری، ص: 486 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بحرین سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھ کر دریافت فرمایا تھا کہ بحرین میں جمعہ پڑھیں یا نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو جمعہ پڑھ لیا کرو۔ اس کا مطلب حضرت امام شافعی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں قال الشافعی معناہ فی ای قریۃ کنتم لان مقامھم بالبحرین انما کان فی القریٰ ( التعلیق المغنی علی الدارقطنی ) یعنی حیث ماکنتم کے یہ معنی ہیں کہ تم جس گاؤں میں بھی موجود ہو ( جمعہ پڑھ لیا کرو ) کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ( سوال کرنے والے ) گاؤں میں ہی مقیم تھے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں وھذا ما یشتمل المدن والقریٰ ( فتح الباری، ص: 486 ) فاروقی حکم شہروں اور دیہاتوں کو برابر شامل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود گاؤں میں جمعہ پڑھنے کے نہ صرف قائل تھے بلکہ سب کو حکم دیتے تھے چنانچہ لیث بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ان اھل الاسکندریۃ ومدآئن مصر سواحلھا کانوا یجمعون الجمعۃ علی عھد عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان بامرھما وفیھا رجال من الصحابۃ ( التعلیق المغنی علی الدار قطنی، جلد:1ص:166 ) اسکندریہ اور مصر کے آس پاس والے حضرت عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں ان دونوں کے ارشاد سے جمعہ پڑھا کرتے تھے حالانکہ وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت بھی موجود تھی اور ولید بن مسلم فرماتے ہیں کہ: سالت اللیث بن سعد ( ای عن التجمیع فی القریٰ ) فقال کل مدینۃ او قریۃ فیھا جماعۃ امروا بالجمعۃ فان اھل مصر وسواحلھا کانوایجمعون الجمعۃ علی عھد عمر وعثمان بامرھما وفیھما رجال من الصحابۃ ( بیہقی والتعلیق المغنی علی الدارقطنی1ص:166وفتح الباری، ص:486 ) نیز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گاؤں اور شہر کے باہر رہنے والوں پر جمعہ کی نماز فرض ہونے کے قائل تھے چنانچہ عبد الرزاق رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم ( فتح الباری، ج1ص:486 والتعلیق المغنی علی الدارقطنی، ص:166 ) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مکہ ومدینہ کے درمیان پانی کے پاس اترتے ہوئے وہاں کے دیہاتی لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو بھی ان کو نہ منع کرتے اور نہ ان کو بر ا کہتے اور ولید بن مسلم روایت کر تے ہیں کہ یروی عن شیبان عن مولی لال سعید بن العاص انہ سال ابن عمر عن القریٰ التی بین مکۃ والمدینۃ ما تری فی الجمعۃ قال نعم اذاکان علیھم امیر فلیجمع ( رواہ البیھقی والتعلیق،ص166 ) سعید بن عاص کے مولیٰ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کے گاؤں کے بارے میں دریافت کیا جو مکہ ومدینہ کے درمیان میں ہیں کہ ان گاؤں میں جمعہ ہے یا نہیں؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں جب کوئی امیر ( امام نماز پڑھانے والا ) ہو تو جمعہ ان کو پڑھائے۔ نیز حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ جعفر بن برقان رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ کتب عمربن عبد العزیز الی عدی بن عدی الکندی انظر کل قریۃ اھل قرار لیسو ھم باھل عمود ینتقلون فامر علیھم امیرا ثم مرہ فلیجمع بھم ( رواہ البیہقی فی المعرفۃ والتعلیق المغنی علی الدار قطنی، ص:166 ) حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عدی ابن عدی الکندی کے پاس لکھ کر بھیجا کہ ہر ایسے گاؤں کو دیکھو جہاں کے لوگ اسی جگہ مستقل طور پر رہتے ہیں۔ ستون والوں ( خانہ بدوشوں ) کی طرح ادھر ادھر پھرتے ومنتقل نہیں ہوتے۔ اس گاؤں والوں پر ایک امیر ( امام ) مقرر کردو کہ ان کو جمعہ پڑھاتا رہے۔ اور حضرت ابوذر ( صحابی ) رضی اللہ عنہ ربذہ گاؤں میں رہنے کے باوجود وہیں چند صحابہ کے ساتھ برابر جمعہ پڑھتے تھے۔ چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ صح انہ کان لعثمان عبد اسود امیر لہ علی الربد یصلی خلفہ ابو ذر رضی اللہ عنہ من الصحابۃ الجمعۃ وغیرھا ( کبیری شرح منیہ ص:512 ) صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک سیاہ فام غلام ربذہ میں حکومت کی طرف سے امیر ( امام ) تھا۔ حضرت ابو ذر ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے جمعہ وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ شہربصرہ کے قریب موضع“زاویہ” میں رہتے تھے۔ کبھی تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے بصرہ آتے اور کبھی جمعہ کی نماز موضع زاویہ ہی میں پڑھ لیتے تھے۔ بخاری شریف، ج:1 ص: 123 میں ہے وکان انس فی قصر احیانا یجمع واحیانا لا یجمع وھو بالزاویۃ علی فرسخین اس عبارت کا مختصر مطلب یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز کبھی زاویہ ہی میں پڑھ لیتے اور کبھی زاویہ میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ بصرہ میں آکر جمعہ پڑھتے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں یہی مطلب بیان فرماتے ہیں قولہ یجمع ای یصلی الجمعۃ بمن معہ او یشھد الجمعۃ البصرۃ یعنی کبھی جمعہ کی نماز ( مقام زاویہ میں ) اپنے ساتھیوں کو پڑھاتے یا جمعہ کے لیے بصرہ تشریف لاتے۔ اور یہی مطلب علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری، ص: 274 جلد: 3 میں بیان فرمایاہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ عید کی نماز بھی اسی زاویہ میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف، ص:134 میں ہے کہ وامر انس بن مالک مولاہ ابن ابی عتبۃ بالزاویۃ فجمع اھلہ وبنیہ وصلی کصلوۃ المصر وتکبیرھم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے آزاد کردہ غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ میں حکم دیا اور اپنے تمام گھر والوں بیٹوں وغیرہ کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح عید کی نماز پڑھی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی عمدۃ القاری،ص:400جلد: 3 میں اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ ان آثار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ اور عیدین کی نماز شہر والوں کی طرح گاؤں میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودگاؤں میں جمعہ پڑھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تھے تو بنی مالک کے گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھی تھی۔ ابن حزم رحمہ اللہ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ ومن اعظم البرھان علی صحتھا فی القری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتی المدینۃ وانما ھی قریۃ صغار متفرقۃ فبنی مسجدہ فی بنی مالک بن نجار وجمع فیہ فی قریۃ لیست بالکبیرۃ ولا مصرھنالک ( عون المعبود شرح ابی داؤد، ج:1ص:414 ) دیہات وگاؤں میں جمعہ پڑھنے کی صحت پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے چھوٹے چھوٹے الگ الگ گاؤں بسے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مالک بن نجار میں مسجد بنائی اور اسی گاؤں میں جمعہ پڑھا جو نہ تو شہر تھا اور نہ بڑا گاؤں ہی تھا۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الحبیر،ص: 132 میں فرماتے ہیں کہ وروی البیھقی فی المعرفۃ عن مغازی ابن اسحاق وموسیٰ ابن عقبۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین رکب من بنی عمرو بن عوف فی ھجرتہ الی المدینۃ فمر علی بنی سالم وھی قریۃ بین قباوالمدینۃ فادرکتہ الجمعۃ فصلی بھم الجمعۃ وکانت اول جمعۃ صلاھا حین قدم امام بیہقی رحمہ اللہ نے المعرفہ میں ابن اسحاق وموسی بن عقبہ رحمہ اللہ کے مغازی سے روایت کیا ہے کہ ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت بنی عمروبن عوف ( قبا ) سے سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو بنی سالم کے پاس سے آپ کا گزر ہوا وہ قبا ومدینہ کے درمیان ایک گاؤں تھا تو اسی جگہ جمعہ نے آپ کو پالیا یعنی جمعہ کا وقت ہو گیا تو سب کے ساتھ ( اسی گاؤں میں ) جمعہ کی نماز پڑھی۔ مدینہ تشریف لانے کے وقت سب سے پہلا یہی جمعہ آپ نے پڑھا ہے۔ خلاصۃ الوفاءص196 میں ہے ولابن اسحاق فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلا ھا فی بطن الوادی وادی ذی رانونا فکانت اول جمعۃ صلاھا با لمدینۃ اور سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ فادرکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی وادی رانونا یعنی وادی ( میدان ) رانونا کی مسجد میں آپ نے جمعہ کی نماز پڑھی۔ اورآپ کے ہجرت کرنے سے پہلے بعض وہ صحابہ کرام جو پہلے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لا چکے تھے وہ اپنے اجتہاد سے بعض گاؤں میں جمعہ پڑھتے تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا جیسے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ہزم النبیت ( گاؤں ) میں جمعہ پڑھایا۔ ابوداؤد شریف میں ہے۔ لانہ اول من جمع بنا فی ھزم النبیت من حرہ بنی بیاضۃ فی نقیع یقال نقیع الخضمات ( الحدیث ) حرہ بنی بیاضہ ایک گاؤں کا نام تھا جو مدینہ طیبہ سے ایک میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الحبیر، ص:133 میں فرماتے ہیں۔ حرۃ بنی بیاضۃ قریۃ علی میل من المدینۃ اور خلاصۃ الوفاءمیں ہے والصواب انہ بھزم النبیت من حرۃبنی بیاضۃ وھی الحرۃ الغربیۃ التی بھا قریۃ بنی بیاضۃ قبل بنی سلمۃ ولذاقال النووی انہ قریۃ بقرب المدینۃ علی میل من منازل بنی سلمۃ قالہ الامام احمد کما نقلہ الشیخ ابو حامد اس عبارت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حرہ بنی بیاضہ مدینہ کے قریب ایک میل کے فاصلہ پر گاؤں ہے۔ اسی گاؤں میں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔ اسی لیے امام خطابی رحمہ اللہ شرح ابی داؤد میں فرماتے ہیں وفی الحدیث من الفقہ ان الجمعۃ جوازھا فی القریٰ کجوازھا فی المدن والامصار اس حدیث سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دیہات میں جمعہ پڑھنا جائز ہے جیسے کہ شہروں میں جائز ہے۔ ان احادیث وآثار سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دیہات میں ہمیشہ جمعہ پڑھا کر تے تھے اور از خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایااورپڑھنے کا حکم دیاہے کہ الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ ( دارقطنی،ص:165 ) ہر گاؤں والوں پر جمعہ فرض ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گاؤں میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما اور حضرت عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ نے بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا۔ ان تمام احادیث وآثار کے ہوتے ہوئے بعض لوگ دیہات میں جمعہ بندکرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ جمعہ تمام مسلمانوں کے لیے عید ہے خواہ شہری ہوں یا دیہاتی۔ ترغیب ترہیب، ص:195ج :1 میں ہے کہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال عرضت الجمعۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاءبھا جبرئیل علیہ السلام فی کفۃ کالمراۃ البیضاءفی وسطھا کالنکتۃ السوداءفقال ما ھذا یا جبرئیل قال ھذہ الجمعۃ یعرضھا علیک ربک لتکون لک عیدا ولقومک من بعدک ( الحدیث رواہ الطبرانی فی الاوسط باسناد جید ترغیب، ص195ج:1 ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمعہ کو سفید آئینہ کی طرح ایک پلہ میں لاکر پیش فرمایا۔ اس کے درمیان میں ایک سیاہ نکتہ سا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ یہ وہ جمعہ ہے جس کو آپ کا رب آپ کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ آپ کے اور آپ کی امت کے واسطے یہ عید ہوکر رہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ تمام امت محمدیہ کے لیے عید ہے، اس میں شہری ودیہاتی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اب دیہاتیوں کو اس عید ( جمعہ ) سے محروم رکھنا انصاف کے خلاف ہے۔ ایمان، نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ جیسے دیہاتی پر برابر فرض ہیں اسی طرح جمعہ بھی دیہاتی وغیر دیہاتی پر برابر فرض ہے۔ اگر گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیحدہ کر کے خارج کر دیتے۔ جیسے مسافر ومریض وغیرہ کو خارج کیا گیا ہے حالانکہ کسی آیت یا حدیث مرفوع صحیح میں اس کا استثناءنہیں کیا گیا۔ مانعین جمعہ کی دلیل! حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ( قول ) لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع مانعین کی سب سے بڑی دلیل ہے مگر یہ قول مذکورہ بالااحادیث وآثار کے معارض ومخالف ہونے کے علاوہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے اور حرمت ووجوب اجتہاد سے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ اس کے لیے نص قطعی ہونا شرط ہے۔ چنانچہ مجمع الانہار، ص:109میں اس اثر کے بعد لکھا ہے۔لکن ھذا مشکل جدا لان الشرط ھو فرض لا یثبت الا بقطعی۔ پھر مصرجامع کی تعریف میں اس قدر اختلاف ہے کہ اگر اس کو معتبر سمجھا جائے تو دیہات تو دیہات ہی ہے آج کل ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی جمعہ پڑھا جانانا جائز ہو جائے گا۔ کیونکہ مصر جامع کی تعریف میں امیر و قاضی واحکام شرعی کا نفاذ اور حدود کا جاری ہونا شرط ہے حالانکہ اس وقت ہندوستان میں نہ کوئی شرعی حاکم وقاضی ہے نہ حدود ہی کا اجراءہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ اکثر اسلامی ملکوں میں بھی حدود کا نفاذ نہیں ہے تو اس قول کے مطابق شہروں میں بھی جمعہ نہ ہونا چاہیے اور ان شرطوں کاثبوت نہ قرآن مجید سے ہے نہ صحیح حدیثوں سے ہے۔ اور لا جمعۃ الخ میں لا نفی کمال کا بھی ہو سکتا ہے یعنی کامل جمعہ شہر ہی میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں جماعت زیادہ ہوتی ہے اور شہر کے اعتبار سے دیہات میں جماعت کم ہوتی ہے۔ اس لیے شہر کی حیثیت سے دیہات میں ثواب کم ملے گا۔ جیسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے 27 درجے زیادہ ثواب ملتا ہے اور تنہا پڑھنے سے اتنا ثواب نہیں ملتا تو لا جمعۃ الخ میں کمال اور زیادتی ثواب کی نفی ہے فرضیت کی نفی نہیں ہے۔ اگر بالفرض اس توجیہ کو تسلیم نہ کیاجائے تو دیہاتیوں کے لیے قربانی اور بقرعید کے دنوں کی تکبیر یں وغیرہ بھی ناجائز ہونی چاہئیں کیونکہ قربانی نماز عید کے تابع وماتحت ہے اور جب متبوع ( نماز عید ) ہی نہیں تو تابع ( قربانی ) کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ جو لوگ دیہات میں جمعہ پڑھنے سے روکتے ہیں ان کو چاہیے کہ دیہاتیوں کو قربانی سے بھی روک دیں۔ اور اثر مذکور پر ان کا خود بھی عمل نہیں کیونکہ تمام فقہاءکا اس پر اتفاق ہے کہ اگر امام کے حکم سے گاؤں میں مسجد بنائی جائے تو اسی کے حکم سے گاؤں میں جمعہ بھی پڑھ سکتے ہیں چنانچہ رد المختار، جلد:اول ص :537 میں ہے۔ اذا بنی مسجد فی الرستاق بامر الامام فھو امر بالجمعۃ اتفاقا علی ما قالہ السرخسی والرستاق القران کما فی القاموس جب گاؤں میں امام کے حکم سے مسجد بنائی جائے تو وہاں باتفاق فقہاءجمعہ کی نماز پڑھی جائے گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے لیے مصر ( شہر ) ہونا ضروری نہیں بلکہ دیہات میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے۔امام محمد رحمہ اللہ بھی اسی طرح فرماتے ہیں۔ حتی لو بعث الی قریۃ نائبا لا قامۃ الحدود والقصاص تصیر مصرا فاذا عزلہ تلحق بالقریٰ ( عینی شرح بخاری، ص:26 وکبیری شرح منیہ، ص: 514 ) اگر کسی نائب کو حدود وقصاص جاری کرنے کے لیے کسی گاؤں میں بھیجے تو وہ گاؤں مصر ( شہر ) ہو جائے گا۔جب نائب کو معزول ( علیحدہ ) کر دے گا تو وہ گاؤں کے ساتھ مل جائے گا یعنی پھر گاؤں ہو جائے گا۔ بہر کیف جمعہ کے لیے مصر ہونا ( شرعاً ) شرط نہیں ہے۔ بلکہ آبادی وبستی وجماعت ہونا ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول فی مصر جامع سے بستی ہی مراد ہو کیونکہ بستی شہر ودیہات دونوں کو شامل ہے اس لیے لفظ قریہ سے کبھی شہر اور کبھی گاؤں مراد لیتے ہیں۔ لیکن اس کے اصل معنی وہی بستی کے ہیں۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری ، جلد: دوم ص: 138میں لکھتے ہیں والقریۃ واحدۃ القریٰ کل مکان اتصلت فیہ الابنیۃ واتخذ قرارا ویقع ذلک علی المدن وغیرھا اور لسان العرب ، ص: 637 ج 1 میں ہے۔ والقریۃ من المساکن والابنیۃ والضیاع وقد تطلق علی المدن وفی الحدیث امرت بقریۃ تاکل القریٰ وھی مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اہ ایضا وجاءفی کل قار وبادی الذی ینزل القریۃ والبادی۔ ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قریہ کے معنی مطلق بستی کے ہیں اور مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں۔ کیونکہ اہل لغت نے قریہ کی تفسیر میں لفظ مصر جامع اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اسی لسان العرب میں ہے قال ابن سیدہ القریۃ والقریۃ لغتان المصر الجامع التھذیب الملسکورۃ یمانیۃ ومن ثم اجتمعوا فی جمعھا علی القری اور قاموس ، ص :285میں ہے القریۃ المصر الجامع اور المنجد، ص:661 میں ہے القریۃ والقریۃ الضیعۃ المصرالجامع۔ ان عبارتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قریہ اور مصر جامع دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ اور قریہ کے معنی بستی کے تو مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں اور بستی شہروگاؤں دونوں کا شامل ہے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کا مطلب یہ ہوا کہ جمعہ بستی میں ہونا چاہیے۔ یعنی شہرو دیہات دونوں جگہ ہونا چاہیے۔ مناسب ہوگا : اس بحث کو ختم کرتے ہوئے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ کا فاضلانہ تبصرہ ( آپ کی قابل قدر کتاب مرعاۃ، جلد:2ص:288سے ) شائقین کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ حضرت موصوف فرماتے ہیں: واختلفوا ایضا فی محل اقامۃ الجمعۃ فقال ابو حنیفۃ واصحابہ لا تصح الا فی مصر جامع وذھب الائمۃ الثلاثۃ الی جوازھا وصحتھا فی المدن والقری ٰ جمیعا واستدل لابی حنیفۃ بماروی عن علی مرفوعا لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع وقد ضعف احمد وغیرہ رفعہ وصحح ابن حزم وغیرہ وفقہ وللاجتہاد فیہ مسرح فلا ینتھض للاحتجاج بہ فضلا عن ان یخصص بہ عموم الا یۃ او یقید بہ اطلاقھا مع ان الحنفیۃ قد تخبطوا فی تحدید المصر الجامع وضبطہ الی اقوال کثیرۃ متباینہ متناقضۃ متخالفۃ جدا کما لا یخفی علی من طالع کتب فروعھم وھذا یدل علی انہ لم یتعین عندھم معنی الحدیث والراجح عندنا ماذھب الیہ الائمۃ الثلاثۃ من عدم اشتراط المصر وجوازھا فی القریٰ لعموم الایۃ واطلاقھا وعدم وجود ما یدل علی تخصیصھا ولا بدل لمن یقید ذالک بالمصر الجامع ان یاتی بدلیل قاطع من کتاب او سنۃ متواترۃ او خبر مشھور بالمعنی المصطلح عند المحدثین وعلی التنزیل بخبر واحد مرفوع صریح صحیح یدل علی التخصیص بالمصر الجامع۔ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ علماءنے محل اقامت جمعہ میں اختلاف کیا ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب کا قول ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے اور ائمہ ثلاثہ حضرت امام شافعی، امام مالک،امام احمد حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں کے علاوہ گاؤں بستیوں میں بھی جمعہ ہر جگہ صحیح اور جائز ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دلیل لی ہے جو مرفوعاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جمعہ اور عید صحیح نہیں مگر مصر جامع میں ۔ا مام احمد وغیرہ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف کہا ہے اور علامہ ابن حزم وغیرہ نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کے لیے کافی گنجائش ہے لہذا یہ احتجاج کے قابل نہیں ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس سے قرآن پاک کی آیت اذا نودی للصلوۃ من یو م الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے۔ پھر حنفیہ خود مصر کی تعریف میں بھی مختلف ہیں۔ جبکہ ان کے ہاں بہ سلسلہ تعریف مصر جامع اقوال بے حد متضاد اور متناقض نیز متبائن ہیں جیسا کہ ان کی کتب فروع کے مطالعہ کرنے والے حضرات پر مخفی نہیں ہے۔ یہ دلیل ہے کہ فی الحقیقت اس حدیث کے کوئی صحیح معنی ان کے ہاں بھی متعین نہیں ہیں پس ہمارے نزدیک یہی راجح ہے کہ تینوں امام جدھر گئے ہیں کہ جمعہ کے لیے مصر کی شرط نہیں ہے اور جمعہ شہر کی طرح گاؤں بستیوں میں بھی جائز ہے یہی فتوی صحیح ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کی آیت مذکور جس سے جمعہ کی فرضیت ہر مسلمان پر ثابت ہوتی ہے ( سوا ان کے جن کو شارع نے مستثنی کر دیا ہے ) یہ آیت عام ہے جو شہری اور دیہاتی جملہ مسلمانوں کو شامل ہے اور مصر جامع کی شرط کے لیے جو آیت کے عموم کو خاص کرے کوئی دلیل قاطع قرآن یا حدیث متواتر یا خبر مشہور جو محدثین کے نزدیک قابل قبول اور لائق استدلال ہو، نہیں ہے نیز کوئی خبر واحد مرفوع صریح صحیح بھی ایسی نہیں ہے جو آیت کو مصر جامع کے ساتھ خاص کر سکے۔ تعداد کے بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:والراجح عندی ما ذھب الیہ اھل الظاھر انہ تصح الجمعۃ باثنین لانہ لم یقم دلیل علی اشتراط عدد مخصوص وقد صحت الجماعۃ فی سائر الصلوات باثنین ولا فرق بینھما وبین الجمعۃ فی ذلک ولم یات نص من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان الجمعۃ لا تنعقد الا بکذا الخ ( مرعاۃ، ج:2ص:288 ) یعنی اس بارے میں کہ جمعہ کے لیے نمازیوں کی کتنی تعداد ضروری ہے، میرے نزدیک اس کو ترجیح حاصل ہے جو اہل ظاہر کا فتوی ہے کہ بلا شک جمعہ دو نمازیوں کے ساتھ بھی صحیح ہے اس لیے کہ عدد مخصوص کے شرط ہونے کے بارے میں کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور دوسری نمازوں کی جماعت بھی دو نمازیوں کے ساتھ صحیح ہے اور پنج وقتہ نماز اور جمعہ میں اس بارے میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ کوئی نص صریح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے کہ جمعہ کا انعقاد اتنی تعداد کے بغیر صحیح نہیں۔ اس بارے میں کوئی حدیث صحیح مرفوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ اس مقالہ کو اس لیے طول دیا گیا ہے کہ حالات موجودہ میں علماءکرام غور کریں اور جہاں بھی مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہ قصبہ ہو یا شہر یا گاؤں ہر جگہ جمعہ قائم کرائیں کیونکہ شان اسلام اس کے قائم کرنے میں ہے اور جمعہ ترک کرانے میں بہت سے نقصانات ہیں جبکہ امامان ہدایت میں سے تینوں امام امام شافعی وامام مالک وامام احمد بن حنبل بھی گاؤں میں جمعہ کے حق میں ہیں پھر اس کے ترک کرانے پر زور دیکر اپنی تقلید جامد کا ثبوت دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ واللہ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا رد فرمایا ہے جو جمعہ کی صحت کے لیے شہر اور حاکم وغیرہ وغیرہ کی قیود لگاتے ہیں اور گاؤں میں جمعہ کے لیے انکار کرتے ہیں۔ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب شارح بخاری فرماتے ہیں کہ اس سے امام بخاری نے ان لوگوں کا رد کیا جو جمعہ کے لیے شہر کی قید کرتے ہیں۔ اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ جمعہ کی شرطیں جو حنفیوں نے لگائی ہیں وہ سب بے دلیل ہیں اور جمعہ دوسری نمازوں کی طرح ہے صرف جماعت اس میں شرط ہے یعنی امام کے سوا ایک آدمی اور ہونا اور نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا سنت ہے باقی کوئی شرط نہیں ہے۔ دارالحرب اور کافروں کے ملک میں بھی حضرت امام نے باب میں لفظ قریٰ اور مدن استعمال فرمایا ہے قریٰ قریۃ کی جمع ہے جو عموماً گاؤں ہی پربولا جاتا ہے اور مدن مدینہ کی جمع ہے جس کا اطلاق شہر پر ہوتا ہے۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی خلاف من خص الجمعۃ بالمدن دون القریٰ یعنی باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے خلاف اشارہ فرمایا ہے جو جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہات میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں۔ آپ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ عبد القیس نامی قبیلہ کی مسجد میں قائم کیا گیا جو جواثی نامی گاؤں میں تھی اور وہ گاؤں علاقہ بحرین میں واقع تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ جمعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہی سے قائم کیا گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیروہ کوئی کام کر سکیں۔ جواثی اس وقت ایک گاؤں تھا۔ مگر حنفی حضرات فرماتے ہیں کہ وہ شہر تھا حالانکہ حدیث مذکورسے اس کا گاؤں ہونا ظاہر ہے جیسا کہ وکیع کی روایت میں صاف موجود ہے۔ انھا قریۃ من قریٰ البحرین یعنی جواثی بحرین کے دیہا ت میں ایک گاؤں تھا۔ بعض روایتوں میں قریٰ عبدالقیس بھی آیا ہے کہ وہ قبیلہ عبد القیس کا ایک گاؤں تھا ( قسطلانی ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بعد میں اس کی آبادی بڑھ گئی ہو اوروہ شہر ہوگیا ہو مگر اقامت جمعہ کے وقت وہ گاؤں ہی تھا۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے مزید وضاحت کے لیے حضرت ابن شہاب کا فرمان ذکر فرمایا کہ انہوں نے رزیق نامی ایک بزرگ کو جو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرف سے ایلہ کے گورنر تھے اور ایک گاؤں میں جہاں ان کی زمینداری تھی، سکونت پذیر تھے ان کو اس گاؤں میں جمعہ قائم کرنے کے لیے اجازت نامہ تحریر فرمایا۔ امام قسطلانی فرماتے ہیں واملاہ ابن شھاب من کاتبہ فسمعہ یونس منہ یعنی ابن شہاب زہری نے اپنے کاتب سے اس اجازت نامے کو لکھوایا اور یونس نے ان سے اس وقت اسے سنا۔ اور ابن شہاب نے یہ حدیث پیش کر کے ان کو بتلایا کہ وہ گاؤں اور دیہات ہی میں ہے لیکن ان کو جمعہ پڑھنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی رعایا کے جو وہاں رہتی ہے، اس طرح اپنے نوکر چاکروں کے نگہبان ہیں جیسے بادشاہ نگہبان ہوتا ہے تو بادشاہ کی طرح ان کو بھی احکام شرعیہ قائم کرناچاہیے جن میں سے ایک اقامت جمعہ بھی ہے۔ ابن شہاب زہری وادی قری میں تھے جو مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 7 ھ بماہ جمادی الاخریٰ میں فتح کیاتھا۔ فتح الباری میں ہے کہ زین بن منیر نے کہا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ بادشاہ کی اجازت کے بغیر بھی منعقد ہوجاتا ہے۔ جب کوئی جمعہ قائم کے نے کے قابل امام خطیب وہاں ہو اور موجود ہو اور اس سے گاؤں میں بھی جمعہ کا صحیح ہونا ثابت ہوا۔ گاؤں میں جمعہ کی صحت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرآن پاک کی آیت کریمہ ہے جس میں فرمایا یٰا ٓیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُوا اِذَا نُودِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَۃِ فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ وَذَرُوا البَیعَ الآیہ ( الجمعہ: 9 ) یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کو یاد کرنے کے لیے چلو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ اس آیت کریمہ میں “ایمان والے” عام ہیں وہ شہری ہوں یا دیہاتی سب اس میں داخل ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الااربعۃ عبد مملوک اوامراۃ اوصبی او مریض ( رواہ ابو داؤد والحاکم ) یعنی جمعہ ہر مسلمان پر حق اور واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ ادا کرے مگر غلام، عورت،بچے اور مریض پر جمعہ فرض نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے :من کان یومن باللہ والیوم الاخر فعلیہ الجمعۃ الامریض اومسافر او امراۃ اوصبی او مملوک فمن استغنی بلھو او تجارۃ اسغنی اللہ عنہ واللہ غنی حمید ( رواہ الدارقطنی ) یعنی جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس پر جمعہ فرض ہے مگر مریض مسافر غلام اوربچے اور عورت پر جمعہ فرض نہیں ہے پس جو کوئی کھیل تماشہ یا تجارت کی وجہ سے بے پروائی کرے تو اللہ پاک بھی اس سے بے پروائی کرے گا کیونکہ اللہ بے نیاز اور محمود ہے۔ آیت شریفہ میں خرید وفروخت کے ذکر سے بعض دماغوں نے جمعہ کے لیے شہر ہونا نکالا ہے حالانکہ یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ آیت شریفہ میں خرید وفروخت کا اس لیے ذکر آیا کہ نزول آیت کے وقت ایسا واقعہ پیش آیا تھا کہ مسلمان ایک تجارتی قافلہ کے آ جانے سے جمعہ چھوڑ کر خرید وفروخت کے لیے دوڑ پڑے تھے۔ اس لیے آیت میں خرید وفروخت چھوڑ نے کا ذکر آ گیا اور اگر اس کو اسی طرح مان لیا جائے تو کون سا گاؤں آج ایسا ہے جہاں کم وبیش خرید وفروخت کا سلسلہ جاری نہ رہتا ہو پس اس آیت سے جمعہ کے لیے شہر کا خاص کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ کوئی ڈوبنے والا تنکے کا سہارا حاصل کرے۔ ایک حدیث میں صاف گاؤں کا لفظ موجود ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ فیھا امام وان لم یکونوا الاربعۃ رواہ الدارقطنی ص: 26 یعنی ہر ایسے گاؤں والوں پر جس میں نماز پڑھا نے والا امام موجود ہو جمعہ واجب ہے اگرچہ چار ہی آدمی ہوں۔ یہ روایت گو قدرے کمزور ہے مگر پہلی روایتوں کی تائید وتقویت اسے حاصل ہے۔ لہذا اس سے بھی استدلال درست ہے اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو صحت جمعہ کے لیے کم از کم چالیس آدمیوں کا ہونا شرط قرار دیتے ہیں۔ اکابرصحابہ سے بھی گاؤں میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ “تم جہاں کہیں ہو جمعہ پڑھ لیا کرو” عطاءبن میمون ابو رافع سے روایت کرتے ہیں کہ ان ابا ھریرۃ کتب الی عمر یسالہ عن الجمعۃ وھو بالبحرین فکتب الیھم ان جمعوا حیث ما کنتم اخرجہ ابن خزیمۃ وصححہ وابن ابی شیبۃ والبیھقی وقال ھذا الا ثر اسنادہ حسن فتح الباری، ص: 486 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بحرین سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھ کر دریافت فرمایا تھا کہ بحرین میں جمعہ پڑھیں یا نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو جمعہ پڑھ لیا کرو۔ اس کا مطلب حضرت امام شافعی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں قال الشافعی معناہ فی ای قریۃ کنتم لان مقامھم بالبحرین انما کان فی القریٰ ( التعلیق المغنی علی الدارقطنی ) یعنی حیث ماکنتم کے یہ معنی ہیں کہ تم جس گاؤں میں بھی موجود ہو ( جمعہ پڑھ لیا کرو ) کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ( سوال کرنے والے ) گاؤں میں ہی مقیم تھے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں وھذا ما یشتمل المدن والقریٰ ( فتح الباری، ص: 486 ) فاروقی حکم شہروں اور دیہاتوں کو برابر شامل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود گاؤں میں جمعہ پڑھنے کے نہ صرف قائل تھے بلکہ سب کو حکم دیتے تھے چنانچہ لیث بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ان اھل الاسکندریۃ ومدآئن مصر سواحلھا کانوا یجمعون الجمعۃ علی عھد عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان بامرھما وفیھا رجال من الصحابۃ ( التعلیق المغنی علی الدار قطنی، جلد:1ص:166 ) اسکندریہ اور مصر کے آس پاس والے حضرت عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں ان دونوں کے ارشاد سے جمعہ پڑھا کرتے تھے حالانکہ وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت بھی موجود تھی اور ولید بن مسلم فرماتے ہیں کہ: سالت اللیث بن سعد ( ای عن التجمیع فی القریٰ ) فقال کل مدینۃ او قریۃ فیھا جماعۃ امروا بالجمعۃ فان اھل مصر وسواحلھا کانوایجمعون الجمعۃ علی عھد عمر وعثمان بامرھما وفیھما رجال من الصحابۃ ( بیہقی والتعلیق المغنی علی الدارقطنی1ص:166وفتح الباری، ص:486 ) نیز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گاؤں اور شہر کے باہر رہنے والوں پر جمعہ کی نماز فرض ہونے کے قائل تھے چنانچہ عبد الرزاق رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم ( فتح الباری، ج1ص:486 والتعلیق المغنی علی الدارقطنی، ص:166 ) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مکہ ومدینہ کے درمیان پانی کے پاس اترتے ہوئے وہاں کے دیہاتی لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو بھی ان کو نہ منع کرتے اور نہ ان کو بر ا کہتے اور ولید بن مسلم روایت کر تے ہیں کہ یروی عن شیبان عن مولی لال سعید بن العاص انہ سال ابن عمر عن القریٰ التی بین مکۃ والمدینۃ ما تری فی الجمعۃ قال نعم اذاکان علیھم امیر فلیجمع ( رواہ البیھقی والتعلیق،ص166 ) سعید بن عاص کے مولیٰ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کے گاؤں کے بارے میں دریافت کیا جو مکہ ومدینہ کے درمیان میں ہیں کہ ان گاؤں میں جمعہ ہے یا نہیں؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں جب کوئی امیر ( امام نماز پڑھانے والا ) ہو تو جمعہ ان کو پڑھائے۔ نیز حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ جعفر بن برقان رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ کتب عمربن عبد العزیز الی عدی بن عدی الکندی انظر کل قریۃ اھل قرار لیسو ھم باھل عمود ینتقلون فامر علیھم امیرا ثم مرہ فلیجمع بھم ( رواہ البیہقی فی المعرفۃ والتعلیق المغنی علی الدار قطنی، ص:166 ) حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عدی ابن عدی الکندی کے پاس لکھ کر بھیجا کہ ہر ایسے گاؤں کو دیکھو جہاں کے لوگ اسی جگہ مستقل طور پر رہتے ہیں۔ ستون والوں ( خانہ بدوشوں ) کی طرح ادھر ادھر پھرتے ومنتقل نہیں ہوتے۔ اس گاؤں والوں پر ایک امیر ( امام ) مقرر کردو کہ ان کو جمعہ پڑھاتا رہے۔ اور حضرت ابوذر ( صحابی ) رضی اللہ عنہ ربذہ گاؤں میں رہنے کے باوجود وہیں چند صحابہ کے ساتھ برابر جمعہ پڑھتے تھے۔ چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ صح انہ کان لعثمان عبد اسود امیر لہ علی الربد یصلی خلفہ ابو ذر رضی اللہ عنہ من الصحابۃ الجمعۃ وغیرھا ( کبیری شرح منیہ ص:512 ) صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک سیاہ فام غلام ربذہ میں حکومت کی طرف سے امیر ( امام ) تھا۔ حضرت ابو ذر ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے جمعہ وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ شہربصرہ کے قریب موضع“زاویہ” میں رہتے تھے۔ کبھی تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے بصرہ آتے اور کبھی جمعہ کی نماز موضع زاویہ ہی میں پڑھ لیتے تھے۔ بخاری شریف، ج:1 ص: 123 میں ہے وکان انس فی قصر احیانا یجمع واحیانا لا یجمع وھو بالزاویۃ علی فرسخین اس عبارت کا مختصر مطلب یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز کبھی زاویہ ہی میں پڑھ لیتے اور کبھی زاویہ میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ بصرہ میں آکر جمعہ پڑھتے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں یہی مطلب بیان فرماتے ہیں قولہ یجمع ای یصلی الجمعۃ بمن معہ او یشھد الجمعۃ البصرۃ یعنی کبھی جمعہ کی نماز ( مقام زاویہ میں ) اپنے ساتھیوں کو پڑھاتے یا جمعہ کے لیے بصرہ تشریف لاتے۔ اور یہی مطلب علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری، ص: 274 جلد: 3 میں بیان فرمایاہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ عید کی نماز بھی اسی زاویہ میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف، ص:134 میں ہے کہ وامر انس بن مالک مولاہ ابن ابی عتبۃ بالزاویۃ فجمع اھلہ وبنیہ وصلی کصلوۃ المصر وتکبیرھم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے آزاد کردہ غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ میں حکم دیا اور اپنے تمام گھر والوں بیٹوں وغیرہ کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح عید کی نماز پڑھی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی عمدۃ القاری،ص:400جلد: 3 میں اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ ان آثار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ اور عیدین کی نماز شہر والوں کی طرح گاؤں میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودگاؤں میں جمعہ پڑھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تھے تو بنی مالک کے گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھی تھی۔ ابن حزم رحمہ اللہ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ ومن اعظم البرھان علی صحتھا فی القری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتی المدینۃ وانما ھی قریۃ صغار متفرقۃ فبنی مسجدہ فی بنی مالک بن نجار وجمع فیہ فی قریۃ لیست بالکبیرۃ ولا مصرھنالک ( عون المعبود شرح ابی داؤد، ج:1ص:414 ) دیہات وگاؤں میں جمعہ پڑھنے کی صحت پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے چھوٹے چھوٹے الگ الگ گاؤں بسے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مالک بن نجار میں مسجد بنائی اور اسی گاؤں میں جمعہ پڑھا جو نہ تو شہر تھا اور نہ بڑا گاؤں ہی تھا۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الحبیر،ص: 132 میں فرماتے ہیں کہ وروی البیھقی فی المعرفۃ عن مغازی ابن اسحاق وموسیٰ ابن عقبۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین رکب من بنی عمرو بن عوف فی ھجرتہ الی المدینۃ فمر علی بنی سالم وھی قریۃ بین قباوالمدینۃ فادرکتہ الجمعۃ فصلی بھم الجمعۃ وکانت اول جمعۃ صلاھا حین قدم امام بیہقی رحمہ اللہ نے المعرفہ میں ابن اسحاق وموسی بن عقبہ رحمہ اللہ کے مغازی سے روایت کیا ہے کہ ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت بنی عمروبن عوف ( قبا ) سے سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو بنی سالم کے پاس سے آپ کا گزر ہوا وہ قبا ومدینہ کے درمیان ایک گاؤں تھا تو اسی جگہ جمعہ نے آپ کو پالیا یعنی جمعہ کا وقت ہو گیا تو سب کے ساتھ ( اسی گاؤں میں ) جمعہ کی نماز پڑھی۔ مدینہ تشریف لانے کے وقت سب سے پہلا یہی جمعہ آپ نے پڑھا ہے۔ خلاصۃ الوفاءص196 میں ہے ولابن اسحاق فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلا ھا فی بطن الوادی وادی ذی رانونا فکانت اول جمعۃ صلاھا با لمدینۃ اور سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ فادرکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی وادی رانونا یعنی وادی ( میدان ) رانونا کی مسجد میں آپ نے جمعہ کی نماز پڑھی۔ اورآپ کے ہجرت کرنے سے پہلے بعض وہ صحابہ کرام جو پہلے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لا چکے تھے وہ اپنے اجتہاد سے بعض گاؤں میں جمعہ پڑھتے تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا جیسے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ہزم النبیت ( گاؤں ) میں جمعہ پڑھایا۔ ابوداؤد شریف میں ہے۔ لانہ اول من جمع بنا فی ھزم النبیت من حرہ بنی بیاضۃ فی نقیع یقال نقیع الخضمات ( الحدیث ) حرہ بنی بیاضہ ایک گاؤں کا نام تھا جو مدینہ طیبہ سے ایک میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الحبیر، ص:133 میں فرماتے ہیں۔ حرۃ بنی بیاضۃ قریۃ علی میل من المدینۃ اور خلاصۃ الوفاءمیں ہے والصواب انہ بھزم النبیت من حرۃبنی بیاضۃ وھی الحرۃ الغربیۃ التی بھا قریۃ بنی بیاضۃ قبل بنی سلمۃ ولذاقال النووی انہ قریۃ بقرب المدینۃ علی میل من منازل بنی سلمۃ قالہ الامام احمد کما نقلہ الشیخ ابو حامد اس عبارت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حرہ بنی بیاضہ مدینہ کے قریب ایک میل کے فاصلہ پر گاؤں ہے۔ اسی گاؤں میں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔ اسی لیے امام خطابی رحمہ اللہ شرح ابی داؤد میں فرماتے ہیں وفی الحدیث من الفقہ ان الجمعۃ جوازھا فی القریٰ کجوازھا فی المدن والامصار اس حدیث سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دیہات میں جمعہ پڑھنا جائز ہے جیسے کہ شہروں میں جائز ہے۔ ان احادیث وآثار سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دیہات میں ہمیشہ جمعہ پڑھا کر تے تھے اور از خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایااورپڑھنے کا حکم دیاہے کہ الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ ( دارقطنی،ص:165 ) ہر گاؤں والوں پر جمعہ فرض ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گاؤں میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما اور حضرت عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ نے بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا۔ ان تمام احادیث وآثار کے ہوتے ہوئے بعض لوگ دیہات میں جمعہ بندکرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ جمعہ تمام مسلمانوں کے لیے عید ہے خواہ شہری ہوں یا دیہاتی۔ ترغیب ترہیب، ص:195ج :1 میں ہے کہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال عرضت الجمعۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاءبھا جبرئیل علیہ السلام فی کفۃ کالمراۃ البیضاءفی وسطھا کالنکتۃ السوداءفقال ما ھذا یا جبرئیل قال ھذہ الجمعۃ یعرضھا علیک ربک لتکون لک عیدا ولقومک من بعدک ( الحدیث رواہ الطبرانی فی الاوسط باسناد جید ترغیب، ص195ج:1 ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمعہ کو سفید آئینہ کی طرح ایک پلہ میں لاکر پیش فرمایا۔ اس کے درمیان میں ایک سیاہ نکتہ سا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ یہ وہ جمعہ ہے جس کو آپ کا رب آپ کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ آپ کے اور آپ کی امت کے واسطے یہ عید ہوکر رہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ تمام امت محمدیہ کے لیے عید ہے، اس میں شہری ودیہاتی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اب دیہاتیوں کو اس عید ( جمعہ ) سے محروم رکھنا انصاف کے خلاف ہے۔ ایمان، نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ جیسے دیہاتی پر برابر فرض ہیں اسی طرح جمعہ بھی دیہاتی وغیر دیہاتی پر برابر فرض ہے۔ اگر گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیحدہ کر کے خارج کر دیتے۔ جیسے مسافر ومریض وغیرہ کو خارج کیا گیا ہے حالانکہ کسی آیت یا حدیث مرفوع صحیح میں اس کا استثناءنہیں کیا گیا۔ مانعین جمعہ کی دلیل! حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ( قول ) لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع مانعین کی سب سے بڑی دلیل ہے مگر یہ قول مذکورہ بالااحادیث وآثار کے معارض ومخالف ہونے کے علاوہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے اور حرمت ووجوب اجتہاد سے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ اس کے لیے نص قطعی ہونا شرط ہے۔ چنانچہ مجمع الانہار، ص:109میں اس اثر کے بعد لکھا ہے۔لکن ھذا مشکل جدا لان الشرط ھو فرض لا یثبت الا بقطعی۔ پھر مصرجامع کی تعریف میں اس قدر اختلاف ہے کہ اگر اس کو معتبر سمجھا جائے تو دیہات تو دیہات ہی ہے آج کل ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی جمعہ پڑھا جانانا جائز ہو جائے گا۔ کیونکہ مصر جامع کی تعریف میں امیر و قاضی واحکام شرعی کا نفاذ اور حدود کا جاری ہونا شرط ہے حالانکہ اس وقت ہندوستان میں نہ کوئی شرعی حاکم وقاضی ہے نہ حدود ہی کا اجراءہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ اکثر اسلامی ملکوں میں بھی حدود کا نفاذ نہیں ہے تو اس قول کے مطابق شہروں میں بھی جمعہ نہ ہونا چاہیے اور ان شرطوں کاثبوت نہ قرآن مجید سے ہے نہ صحیح حدیثوں سے ہے۔ اور لا جمعۃ الخ میں لا نفی کمال کا بھی ہو سکتا ہے یعنی کامل جمعہ شہر ہی میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں جماعت زیادہ ہوتی ہے اور شہر کے اعتبار سے دیہات میں جماعت کم ہوتی ہے۔ اس لیے شہر کی حیثیت سے دیہات میں ثواب کم ملے گا۔ جیسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے 27 درجے زیادہ ثواب ملتا ہے اور تنہا پڑھنے سے اتنا ثواب نہیں ملتا تو لا جمعۃ الخ میں کمال اور زیادتی ثواب کی نفی ہے فرضیت کی نفی نہیں ہے۔ اگر بالفرض اس توجیہ کو تسلیم نہ کیاجائے تو دیہاتیوں کے لیے قربانی اور بقرعید کے دنوں کی تکبیر یں وغیرہ بھی ناجائز ہونی چاہئیں کیونکہ قربانی نماز عید کے تابع وماتحت ہے اور جب متبوع ( نماز عید ) ہی نہیں تو تابع ( قربانی ) کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ جو لوگ دیہات میں جمعہ پڑھنے سے روکتے ہیں ان کو چاہیے کہ دیہاتیوں کو قربانی سے بھی روک دیں۔ اور اثر مذکور پر ان کا خود بھی عمل نہیں کیونکہ تمام فقہاءکا اس پر اتفاق ہے کہ اگر امام کے حکم سے گاؤں میں مسجد بنائی جائے تو اسی کے حکم سے گاؤں میں جمعہ بھی پڑھ سکتے ہیں چنانچہ رد المختار، جلد:اول ص :537 میں ہے۔ اذا بنی مسجد فی الرستاق بامر الامام فھو امر بالجمعۃ اتفاقا علی ما قالہ السرخسی والرستاق القران کما فی القاموس جب گاؤں میں امام کے حکم سے مسجد بنائی جائے تو وہاں باتفاق فقہاءجمعہ کی نماز پڑھی جائے گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے لیے مصر ( شہر ) ہونا ضروری نہیں بلکہ دیہات میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے۔امام محمد رحمہ اللہ بھی اسی طرح فرماتے ہیں۔ حتی لو بعث الی قریۃ نائبا لا قامۃ الحدود والقصاص تصیر مصرا فاذا عزلہ تلحق بالقریٰ ( عینی شرح بخاری، ص:26 وکبیری شرح منیہ، ص: 514 ) اگر کسی نائب کو حدود وقصاص جاری کرنے کے لیے کسی گاؤں میں بھیجے تو وہ گاؤں مصر ( شہر ) ہو جائے گا۔جب نائب کو معزول ( علیحدہ ) کر دے گا تو وہ گاؤں کے ساتھ مل جائے گا یعنی پھر گاؤں ہو جائے گا۔ بہر کیف جمعہ کے لیے مصر ہونا ( شرعاً ) شرط نہیں ہے۔ بلکہ آبادی وبستی وجماعت ہونا ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول فی مصر جامع سے بستی ہی مراد ہو کیونکہ بستی شہر ودیہات دونوں کو شامل ہے اس لیے لفظ قریہ سے کبھی شہر اور کبھی گاؤں مراد لیتے ہیں۔ لیکن اس کے اصل معنی وہی بستی کے ہیں۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری ، جلد: دوم ص: 138میں لکھتے ہیں والقریۃ واحدۃ القریٰ کل مکان اتصلت فیہ الابنیۃ واتخذ قرارا ویقع ذلک علی المدن وغیرھا اور لسان العرب ، ص: 637 ج 1 میں ہے۔ والقریۃ من المساکن والابنیۃ والضیاع وقد تطلق علی المدن وفی الحدیث امرت بقریۃ تاکل القریٰ وھی مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اہ ایضا وجاءفی کل قار وبادی الذی ینزل القریۃ والبادی۔ ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قریہ کے معنی مطلق بستی کے ہیں اور مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں۔ کیونکہ اہل لغت نے قریہ کی تفسیر میں لفظ مصر جامع اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اسی لسان العرب میں ہے قال ابن سیدہ القریۃ والقریۃ لغتان المصر الجامع التھذیب الملسکورۃ یمانیۃ ومن ثم اجتمعوا فی جمعھا علی القری اور قاموس ، ص :285میں ہے القریۃ المصر الجامع اور المنجد، ص:661 میں ہے القریۃ والقریۃ الضیعۃ المصرالجامع۔ ان عبارتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قریہ اور مصر جامع دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ اور قریہ کے معنی بستی کے تو مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں اور بستی شہروگاؤں دونوں کا شامل ہے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کا مطلب یہ ہوا کہ جمعہ بستی میں ہونا چاہیے۔ یعنی شہرو دیہات دونوں جگہ ہونا چاہیے۔ مناسب ہوگا : اس بحث کو ختم کرتے ہوئے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ کا فاضلانہ تبصرہ ( آپ کی قابل قدر کتاب مرعاۃ، جلد:2ص:288سے ) شائقین کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ حضرت موصوف فرماتے ہیں: واختلفوا ایضا فی محل اقامۃ الجمعۃ فقال ابو حنیفۃ واصحابہ لا تصح الا فی مصر جامع وذھب الائمۃ الثلاثۃ الی جوازھا وصحتھا فی المدن والقری ٰ جمیعا واستدل لابی حنیفۃ بماروی عن علی مرفوعا لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع وقد ضعف احمد وغیرہ رفعہ وصحح ابن حزم وغیرہ وفقہ وللاجتہاد فیہ مسرح فلا ینتھض للاحتجاج بہ فضلا عن ان یخصص بہ عموم الا یۃ او یقید بہ اطلاقھا مع ان الحنفیۃ قد تخبطوا فی تحدید المصر الجامع وضبطہ الی اقوال کثیرۃ متباینہ متناقضۃ متخالفۃ جدا کما لا یخفی علی من طالع کتب فروعھم وھذا یدل علی انہ لم یتعین عندھم معنی الحدیث والراجح عندنا ماذھب الیہ الائمۃ الثلاثۃ من عدم اشتراط المصر وجوازھا فی القریٰ لعموم الایۃ واطلاقھا وعدم وجود ما یدل علی تخصیصھا ولا بدل لمن یقید ذالک بالمصر الجامع ان یاتی بدلیل قاطع من کتاب او سنۃ متواترۃ او خبر مشھور بالمعنی المصطلح عند المحدثین وعلی التنزیل بخبر واحد مرفوع صریح صحیح یدل علی التخصیص بالمصر الجامع۔ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ علماءنے محل اقامت جمعہ میں اختلاف کیا ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب کا قول ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے اور ائمہ ثلاثہ حضرت امام شافعی، امام مالک،امام احمد حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں کے علاوہ گاؤں بستیوں میں بھی جمعہ ہر جگہ صحیح اور جائز ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دلیل لی ہے جو مرفوعاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جمعہ اور عید صحیح نہیں مگر مصر جامع میں ۔ا مام احمد وغیرہ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف کہا ہے اور علامہ ابن حزم وغیرہ نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کے لیے کافی گنجائش ہے لہذا یہ احتجاج کے قابل نہیں ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس سے قرآن پاک کی آیت اذا نودی للصلوۃ من یو م الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے۔ پھر حنفیہ خود مصر کی تعریف میں بھی مختلف ہیں۔ جبکہ ان کے ہاں بہ سلسلہ تعریف مصر جامع اقوال بے حد متضاد اور متناقض نیز متبائن ہیں جیسا کہ ان کی کتب فروع کے مطالعہ کرنے والے حضرات پر مخفی نہیں ہے۔ یہ دلیل ہے کہ فی الحقیقت اس حدیث کے کوئی صحیح معنی ان کے ہاں بھی متعین نہیں ہیں پس ہمارے نزدیک یہی راجح ہے کہ تینوں امام جدھر گئے ہیں کہ جمعہ کے لیے مصر کی شرط نہیں ہے اور جمعہ شہر کی طرح گاؤں بستیوں میں بھی جائز ہے یہی فتوی صحیح ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کی آیت مذکور جس سے جمعہ کی فرضیت ہر مسلمان پر ثابت ہوتی ہے ( سوا ان کے جن کو شارع نے مستثنی کر دیا ہے ) یہ آیت عام ہے جو شہری اور دیہاتی جملہ مسلمانوں کو شامل ہے اور مصر جامع کی شرط کے لیے جو آیت کے عموم کو خاص کرے کوئی دلیل قاطع قرآن یا حدیث متواتر یا خبر مشہور جو محدثین کے نزدیک قابل قبول اور لائق استدلال ہو، نہیں ہے نیز کوئی خبر واحد مرفوع صریح صحیح بھی ایسی نہیں ہے جو آیت کو مصر جامع کے ساتھ خاص کر سکے۔ تعداد کے بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:والراجح عندی ما ذھب الیہ اھل الظاھر انہ تصح الجمعۃ باثنین لانہ لم یقم دلیل علی اشتراط عدد مخصوص وقد صحت الجماعۃ فی سائر الصلوات باثنین ولا فرق بینھما وبین الجمعۃ فی ذلک ولم یات نص من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان الجمعۃ لا تنعقد الا بکذا الخ ( مرعاۃ، ج:2ص:288 ) یعنی اس بارے میں کہ جمعہ کے لیے نمازیوں کی کتنی تعداد ضروری ہے، میرے نزدیک اس کو ترجیح حاصل ہے جو اہل ظاہر کا فتوی ہے کہ بلا شک جمعہ دو نمازیوں کے ساتھ بھی صحیح ہے اس لیے کہ عدد مخصوص کے شرط ہونے کے بارے میں کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور دوسری نمازوں کی جماعت بھی دو نمازیوں کے ساتھ صحیح ہے اور پنج وقتہ نماز اور جمعہ میں اس بارے میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ کوئی نص صریح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے کہ جمعہ کا انعقاد اتنی تعداد کے بغیر صحیح نہیں۔ اس بارے میں کوئی حدیث صحیح مرفوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ اس مقالہ کو اس لیے طول دیا گیا ہے کہ حالات موجودہ میں علماءکرام غور کریں اور جہاں بھی مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہ قصبہ ہو یا شہر یا گاؤں ہر جگہ جمعہ قائم کرائیں کیونکہ شان اسلام اس کے قائم کرنے میں ہے اور جمعہ ترک کرانے میں بہت سے نقصانات ہیں جبکہ امامان ہدایت میں سے تینوں امام امام شافعی وامام مالک وامام احمد بن حنبل بھی گاؤں میں جمعہ کے حق میں ہیں پھر اس کے ترک کرانے پر زور دیکر اپنی تقلید جامد کا ثبوت دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ واللہ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم