‌صحيح البخاري - حدیث 891

كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ مَا يُقْرَأُ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ يَوْمَ الجُمُعَةِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وَهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنْ الدَّهْرِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 891

کتاب: جمعہ کے بیان میں باب: جمعہ کے دن نماز فجر میں کون سی سورت پڑھے ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے سعد بن ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے، ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم تنزیل اور ھل اتی علی الانسان پڑھا کرتے تھے۔
تشریح : طبرانی کی روایت ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے۔ ان سورتوں میں انسان کی پیدائش اور قیامت وغیرہ کا ذکر ہے اور یہ جمعہ کے دن ہی واقع ہوگی۔ اس حدیث سے مالکیہ کا رد ہوا جو نماز میں سجدہ والی سورت پڑھنا مکروہ جانتے ہیں۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ آپ نے ظہر کی نماز میں سجدے کی سورت پڑھی اور سجدہ کیا ( وحید ی ) علامہ شوکانی اس بارے میں کئی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وھذا الاحادیث فیھا مشروعیۃ قراۃ تنزیل السجدۃ وھل اتی علی الانسان قال العراقی وممن کان یفعلہ من الصحابۃ عبد اللہ بن عباس ومن التابعین ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف وھو مذھب الشافعی واحمد واصحاب الاحادیث ( نیل الاوطار ) یعنی ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جمعہ کے دن فجر کی نمازکی پہلی رکعت میں الم تنزیل سجدہ اور دوسری میں ھل اتی علی الانسان پڑھنا مشروع ہے، صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس اور تابعین میں سے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کا یہی عمل تھا اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں والتعبیر بکان یشعر بمواظبتہ علیہ الصلوۃ والسلام علی القراۃ بھما فیھا یعنی حدیث مذکور میں لفظ کان بتلا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ان سورتوں پر مواظبت یعنی ہمیشگی فرمائی ہے۔ اگر چہ کچھ علماءمواظبت کو نہیں مانتے مگر طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یدیم بذلک لفظ موجود ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل پر مداومت فرمائی ( قسطلانی ) کچھ لوگوں نے دعوی کیا تھا کہ اہل مدینہ نے یہ عمل ترک کر دیا تھا، اس کا جواب علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان لفظوں میں دیا ہے واما دعواہ ان الناس ترکوا العمل بہ فباطلۃ لان اکثر اہل العلم من الصحابۃ والتابعین قد قالوا بہ کما نقلہ ابن المنذر وغیرہ حتی انہ ثابت عن ابراہیم ابن عرف والاسعد وھو من کبار التابعین من اہل المدینۃ انہ ام الناس بالمدینۃ بھما فی الفجر یوم الجمعۃ اخرجہ ابن ابی شیبۃباسناد صحیح الخ ( فتح الباری ) یعنی یہ دعوی کہ لوگوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا باطل ہے۔ اس لیے کہ اکثر اہل علم صحابہ وتابعین اس کے قائل ہیں جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے نقل کیا ہے حتی کہ ابراہیم ابن عوف سے بھی یہ ثابت ہے جو مدینہ کے کبار تابعین سے ہیں کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور ان ہی دو سورتوں کو پڑھا۔ ابن ابی شیبہ نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ طبرانی کی روایت ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے۔ ان سورتوں میں انسان کی پیدائش اور قیامت وغیرہ کا ذکر ہے اور یہ جمعہ کے دن ہی واقع ہوگی۔ اس حدیث سے مالکیہ کا رد ہوا جو نماز میں سجدہ والی سورت پڑھنا مکروہ جانتے ہیں۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ آپ نے ظہر کی نماز میں سجدے کی سورت پڑھی اور سجدہ کیا ( وحید ی ) علامہ شوکانی اس بارے میں کئی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وھذا الاحادیث فیھا مشروعیۃ قراۃ تنزیل السجدۃ وھل اتی علی الانسان قال العراقی وممن کان یفعلہ من الصحابۃ عبد اللہ بن عباس ومن التابعین ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف وھو مذھب الشافعی واحمد واصحاب الاحادیث ( نیل الاوطار ) یعنی ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جمعہ کے دن فجر کی نمازکی پہلی رکعت میں الم تنزیل سجدہ اور دوسری میں ھل اتی علی الانسان پڑھنا مشروع ہے، صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس اور تابعین میں سے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کا یہی عمل تھا اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں والتعبیر بکان یشعر بمواظبتہ علیہ الصلوۃ والسلام علی القراۃ بھما فیھا یعنی حدیث مذکور میں لفظ کان بتلا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ان سورتوں پر مواظبت یعنی ہمیشگی فرمائی ہے۔ اگر چہ کچھ علماءمواظبت کو نہیں مانتے مگر طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یدیم بذلک لفظ موجود ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل پر مداومت فرمائی ( قسطلانی ) کچھ لوگوں نے دعوی کیا تھا کہ اہل مدینہ نے یہ عمل ترک کر دیا تھا، اس کا جواب علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان لفظوں میں دیا ہے واما دعواہ ان الناس ترکوا العمل بہ فباطلۃ لان اکثر اہل العلم من الصحابۃ والتابعین قد قالوا بہ کما نقلہ ابن المنذر وغیرہ حتی انہ ثابت عن ابراہیم ابن عرف والاسعد وھو من کبار التابعین من اہل المدینۃ انہ ام الناس بالمدینۃ بھما فی الفجر یوم الجمعۃ اخرجہ ابن ابی شیبۃباسناد صحیح الخ ( فتح الباری ) یعنی یہ دعوی کہ لوگوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا باطل ہے۔ اس لیے کہ اکثر اہل علم صحابہ وتابعین اس کے قائل ہیں جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے نقل کیا ہے حتی کہ ابراہیم ابن عوف سے بھی یہ ثابت ہے جو مدینہ کے کبار تابعین سے ہیں کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور ان ہی دو سورتوں کو پڑھا۔ ابن ابی شیبہ نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔