كِتَابُ العِلْمِ بَابُ الرِّحْلَةِ فِي المَسْأَلَةِ النَّازِلَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الحَسَنِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الحَارِثِ، أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عُزَيْزٍ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي، وَلاَ أَخْبَرْتِنِي، فَرَكِبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ» فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ، وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ
کتاب: علم کے بیان میں
باب:مسائل معلوم کرنے کے لئے سفر کرنا
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھیں عبداللہ نے خبر دی، انھیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ ( یہ سن کر ) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس طرح ( تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے ) حالانکہ ( اس کے متعلق یہ ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔
تشریح :
عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑدیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہوگیاتواب شبہ کی چیزسے بچنا ہی بہترہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفرکرکے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جوجوسفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفرہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرادی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاطاً کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑدیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہوگیاتواب شبہ کی چیزسے بچنا ہی بہترہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفرکرکے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جوجوسفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفرہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرادی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاطاً کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔