‌صحيح البخاري - حدیث 872

كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ خَلْفَ الرِّجَالِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ بِغَلَسٍ فَيَنْصَرِفْنَ نِسَاءُ الْمُؤْمِنِينَ لَا يُعْرَفْنَ مِنْ الْغَلَسِ أَوْ لَا يَعْرِفُ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 872

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز پڑھنا ہم سے یحیٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے عبدالرحمن بن قاسم سے بیان کیا، ان سے اس کے باپ ( قاسم بن محمد بن ابی بکر ) نے ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھتے تھے۔ مسلمانوں کی عورتیں جب ( نماز پڑھ کر ) واپس ہوتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہوتی یا وہ ایک دوسری کو نہ پہچان سکتیں۔
تشریح : تشریح : نماز ختم ہوتے ہی عورتیں واپس ہو جاتی تھیں اس لیے ان کی واپسی کے وقت بھی اتنا اندھیرا رہتا تھا کہ ایک دوسری کو پہچان نہیں سکتی تھی۔ لیکن مرد فجر کے بعد عام طور سے نماز کے بعد مسجد میں کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے تھے۔ حضرت اما م بخاری رحمہ اللہ کو اللہ پاک نے اجتہاد کا درجہ کامل عطا فرمایا تھا۔ اسی بنا پر آپ نے اپنی جامع الصحیح میں ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے حدیث مذکور پیچھے بھی کئی بار مذکورہو چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے فجر کی نماز اول وقت غلس میں پڑھنے کا اثبات فرمایا ہے۔ اور یہاں عورتوں کا شریک جماعت ہونا اور سلام کے بعد ان کا فوراً مسجد سے چلے جانا وغیرہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ تعجب ہے ان عقل کے دشمنوں پر جو حضرت امام جیسے مجتہد مطلق کی درایت کا انکار کرتے اور آپ کو صرف روایت کا امام تسلیم کرتے ہیں حالانکہ روایت اور درایت ہر دو میں آپ کی مہارت تامہ ثابت ہے اور مزید خوبی یہ کہ آپ کی درایت وتفقہ کی بنیاد محض قرآن وحدیث پر ہے رائے اور قیاس پر نہیں جیسا کہ دوسرے ائمہ مجتہدین میں سے بعض حضرات کا حال ہے جن کے تفقہ کی بنیاد محض رائے اور قیاس پر ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو اللہ نے جو مقام عطا فرمایا تھا وہ امت میں بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہے۔ اللہ نے آپ کو پیدا ہی اس لیے فرمایا تھا کہ شریعت محمدیہ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر اس درجہ منضبط فرمائیں کہ قیامت تک کے لیے امت اس سے بے نیاز ہو کے بے دھڑک شریعت پر عمل کرتی رہے۔ آیت شریفہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوابِھِم ( الجمعہ:3 ) کے مصداق بے شک وشبہ ان ہی محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین کی جماعت ہے۔ تشریح : نماز ختم ہوتے ہی عورتیں واپس ہو جاتی تھیں اس لیے ان کی واپسی کے وقت بھی اتنا اندھیرا رہتا تھا کہ ایک دوسری کو پہچان نہیں سکتی تھی۔ لیکن مرد فجر کے بعد عام طور سے نماز کے بعد مسجد میں کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے تھے۔ حضرت اما م بخاری رحمہ اللہ کو اللہ پاک نے اجتہاد کا درجہ کامل عطا فرمایا تھا۔ اسی بنا پر آپ نے اپنی جامع الصحیح میں ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے حدیث مذکور پیچھے بھی کئی بار مذکورہو چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے فجر کی نماز اول وقت غلس میں پڑھنے کا اثبات فرمایا ہے۔ اور یہاں عورتوں کا شریک جماعت ہونا اور سلام کے بعد ان کا فوراً مسجد سے چلے جانا وغیرہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ تعجب ہے ان عقل کے دشمنوں پر جو حضرت امام جیسے مجتہد مطلق کی درایت کا انکار کرتے اور آپ کو صرف روایت کا امام تسلیم کرتے ہیں حالانکہ روایت اور درایت ہر دو میں آپ کی مہارت تامہ ثابت ہے اور مزید خوبی یہ کہ آپ کی درایت وتفقہ کی بنیاد محض قرآن وحدیث پر ہے رائے اور قیاس پر نہیں جیسا کہ دوسرے ائمہ مجتہدین میں سے بعض حضرات کا حال ہے جن کے تفقہ کی بنیاد محض رائے اور قیاس پر ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو اللہ نے جو مقام عطا فرمایا تھا وہ امت میں بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہے۔ اللہ نے آپ کو پیدا ہی اس لیے فرمایا تھا کہ شریعت محمدیہ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر اس درجہ منضبط فرمائیں کہ قیامت تک کے لیے امت اس سے بے نیاز ہو کے بے دھڑک شریعت پر عمل کرتی رہے۔ آیت شریفہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوابِھِم ( الجمعہ:3 ) کے مصداق بے شک وشبہ ان ہی محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین کی جماعت ہے۔