‌صحيح البخاري - حدیث 863

كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَهُ رَجُلٌ شَهِدْتَ الْخُرُوجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ وَلَوْلَا مَكَانِي مِنْهُ مَا شَهِدْتُهُ يَعْنِي مِنْ صِغَرِهِ أَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ ثُمَّ خَطَبَ ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ أَنْ يَتَصَدَّقْنَ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُهْوِي بِيَدِهَا إِلَى حَلْقِهَا تُلْقِي فِي ثَوْبِ بِلَالٍ ثُمَّ أَتَى هُوَ وَبِلَالٌ الْبَيْتَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 863

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا تھا کہ کیا تم نے ( عورتوںکا ) نکلنا عید کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھاہے؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھا ہے اگر میں آپ کا رشتہ دار عزیز نہ ہوتا تو کبھی نہ دیکھتا ( یعنی میری کم سنی اور قرابت کی وجہ سے آنحضرت مجھ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے ) کثیر بن صلت کے مکان کے پاس جو نشان ہے پہلے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سنایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس تشریف لائے اور انہیں بھی وعظ ونصیحت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خیرات کرنے کے لیے کہا، چنانچہ عورتوں نے اپنے چھلے اور انگوٹھیاں اتار اتار کر بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنی شروع کر دیے۔ آخر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ گھر تشریف لائے۔
تشریح : حضرت ابن عباس کمسن تھے،باوجود اس کے عید میں شریک ہوئے، یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور اس سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ چونکہ احناف کے ہاں عید گاہ میں عورتوں کا جاناجائز نہیں ہے، اس لیے ایک دیوبندی ترجمہ بخاری میں یہاں ترجمہ ہی بدل دیا گیا ہے چنانچہ وہ ترجمہ یوں کرتے ہیں“ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ عیدگاہ گئے تھے۔” حالانکہ پوچھا یہ جارہا تھا کہ کیا تم نے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتوں کا نکلنا دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور دیکھا ہے۔ یہ بدلا ہوا ترجمہ دیوبندی تفہیم البخاری پارہ: 4 ص: 32 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ غالباًایسے ہی حضرات کے لیے کہا گیا ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں وفقنا اللہ لما یحب ویرضی آمین حضرت ابن عباس کمسن تھے،باوجود اس کے عید میں شریک ہوئے، یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور اس سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ چونکہ احناف کے ہاں عید گاہ میں عورتوں کا جاناجائز نہیں ہے، اس لیے ایک دیوبندی ترجمہ بخاری میں یہاں ترجمہ ہی بدل دیا گیا ہے چنانچہ وہ ترجمہ یوں کرتے ہیں“ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ عیدگاہ گئے تھے۔” حالانکہ پوچھا یہ جارہا تھا کہ کیا تم نے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتوں کا نکلنا دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور دیکھا ہے۔ یہ بدلا ہوا ترجمہ دیوبندی تفہیم البخاری پارہ: 4 ص: 32 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ غالباًایسے ہی حضرات کے لیے کہا گیا ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں وفقنا اللہ لما یحب ویرضی آمین