كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ صحيح أقبلت راكبا على حمار أتان وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدى بعض الصف، فنزلت وأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف، فلم ينكر ذلك على أحد.
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے فرمایا کہ میں ایک گدھی پر سوار ہوکر آیا۔ ابھی میں جوانی کے قریب تھا ( لیکن بالغ نہ تھا ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھارہے تھے۔ آپ کے سامنے دیوار وغیرہ ( آڑ ) نہ تھی۔ میں صف کے ایک حصے کے آگے سے گزر کر اترا۔ گدھی چرنے کے لیے چھوڑدی اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ کسی نے مجھ پر اعتراض نہیںکیا ( حالانکہ میں نابالغ تھا )
تشریح :
اس حدیث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب ثابت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس اس وقت نابالغ تھے، ان کا صف میں شریک ہونا اور وضو کرنا نماز پڑھنا ثابت ہوا۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکوں کو ضرورضرور نماز کی عادت ڈلوانی چاہیے۔ اسی لیے سات سال کی عمر سے نماز کا حکم کرنا ضروری ہے اور دس سال کی عمر ہونے پر ان کو دھمکا کر بھی نماز کا عادی بنانا چاہیے۔
اس حدیث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب ثابت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس اس وقت نابالغ تھے، ان کا صف میں شریک ہونا اور وضو کرنا نماز پڑھنا ثابت ہوا۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکوں کو ضرورضرور نماز کی عادت ڈلوانی چاہیے۔ اسی لیے سات سال کی عمر سے نماز کا حکم کرنا ضروری ہے اور دس سال کی عمر ہونے پر ان کو دھمکا کر بھی نماز کا عادی بنانا چاہیے۔