‌صحيح البخاري - حدیث 857

كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنِي غُنْدَرٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ الشَّيْبَانِيَّ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَأَمَّهُمْ وَصَفُّوا عَلَيْهِ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَمْرٍو مَنْ حَدَّثَكَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 857

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان شیبانی سے سنا، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی جو ( ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اکیلی الگ تھلگ ٹوٹی ہوئی قبر پر سے گزررہے تھے وہاں آنحضرت نے نماز پڑھائی اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھے ہوئے تھے۔ سلیمان نے کہا کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ ابوعمرو آپ سے یہ کس نے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ بچے اگرچہ نابالغ ہوں مگر10-8 سال کی عمر میں جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو وضو کرنا ہوگا اور وہ جماعت وعیدین وجنائز میں بھی شرکت کر سکتے ہیں جیسا کہ یہاں اس روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے جوابھی نابالغ تھے مگر یہاں ان کا صف میںشامل ہونا ثابت ہے پس اگرچہ بچے بالغ ہونے پر ہی مکلف ہوں گے مگر عادت ڈالنے کے لیے نابالغی کے زمانہ ہی سے ان کو ان باتوں پر عمل کرانا چاہیے حضرت مولاناوحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکوں پر وضو واجب ہے یا نہیں کیونکہ صورت ثانی میں لڑکوں کی نماز بے وضو درست ہوتی اور صورت اولی میں لڑکوں کو وضو اور نماز کے ترک پر عذاب لازم آتا صرف اس قدر بیان کر دیا جتنا حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نماز وغیرہ میں شریک ہوتے اور یہ ان کی کمال احتیاط ہے۔ اہل حدیث کی شان یہی ہونی چاہیے کہ آیتِ کریمہ لَاتُقَدِّمُوابَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِہ ( الحجرات:1 ) اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو ) کے تحت صرف اسی پر اکتفاکریں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوآگے بے جا رائے، قیاس، تاویل فاسدہ سے کام نہ لیں خصوصاً نص کے مقابلہ پر قیاس کرنا ابلیس کا کام ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ بچے اگرچہ نابالغ ہوں مگر10-8 سال کی عمر میں جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو وضو کرنا ہوگا اور وہ جماعت وعیدین وجنائز میں بھی شرکت کر سکتے ہیں جیسا کہ یہاں اس روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے جوابھی نابالغ تھے مگر یہاں ان کا صف میںشامل ہونا ثابت ہے پس اگرچہ بچے بالغ ہونے پر ہی مکلف ہوں گے مگر عادت ڈالنے کے لیے نابالغی کے زمانہ ہی سے ان کو ان باتوں پر عمل کرانا چاہیے حضرت مولاناوحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکوں پر وضو واجب ہے یا نہیں کیونکہ صورت ثانی میں لڑکوں کی نماز بے وضو درست ہوتی اور صورت اولی میں لڑکوں کو وضو اور نماز کے ترک پر عذاب لازم آتا صرف اس قدر بیان کر دیا جتنا حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نماز وغیرہ میں شریک ہوتے اور یہ ان کی کمال احتیاط ہے۔ اہل حدیث کی شان یہی ہونی چاہیے کہ آیتِ کریمہ لَاتُقَدِّمُوابَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِہ ( الحجرات:1 ) اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو ) کے تحت صرف اسی پر اکتفاکریں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوآگے بے جا رائے، قیاس، تاویل فاسدہ سے کام نہ لیں خصوصاً نص کے مقابلہ پر قیاس کرنا ابلیس کا کام ہے۔