‌صحيح البخاري - حدیث 847

كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ سَمِعَ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَلَمَّا صَلَّى أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَرَقَدُوا وَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمْ الصَّلَاةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 847

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: امام سلام کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر لے ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے یزید بن ہارون سے سنا، انہیں حمید ذیلی نے خبر دی، اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات ( عشاء کی ) نماز میں دیر فرمائی تقریباً آدھی رات تک۔ پھر آخر حجرہ سے باہر تشریف لائے اور نماز کے بعد ہماری طرف منہ کیا اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو چکے لیکن تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے گویا کہ نماز میں رہے ( یعنی تم کو نماز کا ثواب ملتا رہا )۔
تشریح : ان جملہ مرویات سے ظاہر ہوا کہ سلام پھیرنے کے بعد امام مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، پھر تسبیح تہلیل کرے یا لوگوں کو مسئلہ مسائل بتلائے یا پھر اٹھ کر چلاجائے۔ ان جملہ مرویات سے ظاہر ہوا کہ سلام پھیرنے کے بعد امام مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، پھر تسبیح تہلیل کرے یا لوگوں کو مسئلہ مسائل بتلائے یا پھر اٹھ کر چلاجائے۔