‌صحيح البخاري - حدیث 840

كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ رَدَّ السَّلاَمِ عَلَى الإِمَامِ وَاكْتَفَى بِتَسْلِيمِ الصَّلاَةِ صحيح - قَالَ: سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصارِيَّ، ثُمَّ أَحَدَ بَنِي سَالِمٍ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بَنِي سَالِمٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ السُّيُولَ تَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي، فَلَوَدِدْتُ أَنَّكَ جِئْتَ، فَصَلَّيْتَ فِي بَيْتِي مَكَانًا حَتَّى أَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا، فَقَالَ: «أَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ»، فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ [ص:168] مِنْ بَيْتِكَ؟»، فَأَشَارَ إِلَيْهِ مِنَ المَكَانِ الَّذِي أَحَبَّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ، فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 840

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں انہوں نے بیان کیاکہ میں نے عتبان بن مالک انصاری سے سنا، پھر بن ی سالم کے ایک شخص سے اس کی مزید تصدیق ہوئی۔ عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کی امامت کیا کرتا تھا۔ میں انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور میری آنکھ خراب ہو گئی ہے اور ( برسات میں ) پانی سے بھرے ہوئے نالے میرے اور میری قوم کی مسجد کے بیچ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لاکر کسی ایک جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسے اپنی نماز کے لیے مقرر کر لوں آں حضور نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالی میں تمہاری خواہش پوری کروںگا صبح کو جب دن چڑھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ابوبکر آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے ( اندر آنے کی ) اجازت چاہی اور میں نے دے دی۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ پوچھا کہ گھر کے کس حصہ میں نماز پڑھوانا چاہتے ہو۔ ایک جگہ کی طرف جسے میں نے نماز پڑھنے کے لیے پسند کیا تھا۔ اشارہ کیا۔ آپ ( نماز کے لیے ) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بن ائی۔ پھر آپ نے سلام پھیرا اور جب آپ نے سلام پھیراتو ہم نے بھی پھیرا۔
تشریح : جمہور فقہاءکے نزدیک نماز میں دو سلام ہیں۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے صرف ایک سلام کافی ہے اورنماز با جماعت ہو رہی ہو تو دو سلام ہونے چاہئیں۔ امام کے لیے بھی اور مقتدی کے لیے بھی۔ لیکن اگر مقتدی امام کے بالکل پیچھے ہے یعنی نہ دائیں جانب نہ بائیں جانب تو اسے تین سلام پھیرنے پڑیںگے۔ ایک دائیں طرف کے مصلیوں کے لیے دوسرا بائیں طرف والوں کے لیے اور تیسرا امام کے لیے۔ گویااس سلام میں بھی انہوں نے ملاقات کے سلام کے آداب کا لحاظ رکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ جمہور کے مسلک کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں اس حدیث سے باب کا مطلب یوںنکلا کہ ظاہر یہ ہے کہ مقتدیوں کا سلام بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کی طرح تھا اور اگر مقتدیوں نے کوئی تیسرا سلام کہا ہوتا تو اس کا ضرور بیان کرتے یہ بھی حدیث سے نکلا کہ معذورین کے لیے اور نوافل کے لیے گھر کے کسی حصہ میں نماز کی جگہ متعین کر دیجائے تو اس کی اجازت ہے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ کسی واقعی اہل اللہ بزرگ سے اس قسم کی درخواست جائز ہے۔ جمہور فقہاءکے نزدیک نماز میں دو سلام ہیں۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے صرف ایک سلام کافی ہے اورنماز با جماعت ہو رہی ہو تو دو سلام ہونے چاہئیں۔ امام کے لیے بھی اور مقتدی کے لیے بھی۔ لیکن اگر مقتدی امام کے بالکل پیچھے ہے یعنی نہ دائیں جانب نہ بائیں جانب تو اسے تین سلام پھیرنے پڑیںگے۔ ایک دائیں طرف کے مصلیوں کے لیے دوسرا بائیں طرف والوں کے لیے اور تیسرا امام کے لیے۔ گویااس سلام میں بھی انہوں نے ملاقات کے سلام کے آداب کا لحاظ رکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ جمہور کے مسلک کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں اس حدیث سے باب کا مطلب یوںنکلا کہ ظاہر یہ ہے کہ مقتدیوں کا سلام بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کی طرح تھا اور اگر مقتدیوں نے کوئی تیسرا سلام کہا ہوتا تو اس کا ضرور بیان کرتے یہ بھی حدیث سے نکلا کہ معذورین کے لیے اور نوافل کے لیے گھر کے کسی حصہ میں نماز کی جگہ متعین کر دیجائے تو اس کی اجازت ہے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ کسی واقعی اہل اللہ بزرگ سے اس قسم کی درخواست جائز ہے۔