كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ التَّشَهُّدِ فِي الآخِرَةِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ فَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمُوهَا أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: آخری قعدہ میں تشہد پڑھنا
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے شقیق بن سلمہ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے ( ترجمہ ) سلام ہو جبریل اور میکائیل پر سلام ہو فلاں اور فلاں پر ( اللہ پر سلام ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اللہ تو خود “ سلام ” ہے۔ ( تم اللہ کو کیا سلام کرتے ہو ) اس لیے جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ کہے ( ترجمہ ) تمام آداب بن دگی، تمام عبادات اور تمام بہترین تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ آپ پر سلام ہو اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہم پر سلام اور اللہ کے تمام صالح بن دوں پر سلام۔ جب تم یہ کہو گے تو تمہارا سلام آسمان وزمین میں جہاں کوئی اللہ کا نیک بن دہ ہے اس کو پہنچ جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بن دے اور رسول ہیں۔
تشریح :
یہ قعدہ کی دعا ہے جسے تشہد کہتے ہیں۔ بندہ پہلے کہتا ہے کہ تحیات۔ صلوات اور طیبات اللہ تعالی کے لیے ہیں۔ یہ تین الفاظ قول وفعل کے تمام محاسن کو شامل ہیں یعنی تمام خیر اور بھلائی خدا وند قدوس کے لیے ثابت ہے اور اسی کی طرف سے ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا گیا اور اس میں خطاب کی ضمیر اختیار کی گئی ہے کیوں کہ صحابہ کو یہ دعا سکھائی گئی تھی اور آپ اس وقت موجود تھے۔ اب جن الفاظ کے ساتھ ہمیں یہ دعا پہنچی ہے اسی طرح پڑھنی چاہیے۔ ( تفہیم البخاری ) سلام در حقیقت دعا ہے یعنی تم سلامت رہو اللہ پاک کو ایسی دعا دینے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ ہرایک آفت اورتغیر سے پاک ہے وہ ازلی ابدی ہے اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں وہ ساری کائنات کو خود سلامتی بخشنے والا اور سب کی پرورش کرنے والا ہے اسی لیے اس کا نام سلام ہوااسی دعا میں لفظ التحیات اور صلوات اور طیبات وارد ہوتے ہیں تحیات کے معنی سلامتی بقا عظمت ہر نقص سے پاکی ہر قسم کی تعظیم مرادہے یہ عبادات قولی پر صلوات عبادات فعلی پر اورطیبات عبادات مالی پربولاگیا ہے۔ ( فتح الباری )
پس یہ تینوںقسم کی عبادات ایک اللہ ہی کے لیے مخصوص ہیں جو لوگ ان عبادات میں کسی غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں وہ فرشتے ہوں یا انسان یا اور کچھ، وہ خالق کا حق چھین کر جو مخلوق کو دیتے ہیں۔ یہی وہ ظلم عظیم ہے جسے قرآن مجید میں شرک کہا گیا ہے۔ جس کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے “وَمَن یُشرِک بِاللّٰہِ فَقَد حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیہِ الجَنَّۃَ وَمَاوَاہُ النَّارُ”یعنی شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے عبادات قولی میں زبان سے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اس کا نام لینا، عبادات فعلی میں رکوع سجدہ قیام، عبادات مالی میں ہر قسم کا صدقہ خیرات نیاز نذر وغیرہ وغیرہ مراد ہے۔
یہ قعدہ کی دعا ہے جسے تشہد کہتے ہیں۔ بندہ پہلے کہتا ہے کہ تحیات۔ صلوات اور طیبات اللہ تعالی کے لیے ہیں۔ یہ تین الفاظ قول وفعل کے تمام محاسن کو شامل ہیں یعنی تمام خیر اور بھلائی خدا وند قدوس کے لیے ثابت ہے اور اسی کی طرف سے ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا گیا اور اس میں خطاب کی ضمیر اختیار کی گئی ہے کیوں کہ صحابہ کو یہ دعا سکھائی گئی تھی اور آپ اس وقت موجود تھے۔ اب جن الفاظ کے ساتھ ہمیں یہ دعا پہنچی ہے اسی طرح پڑھنی چاہیے۔ ( تفہیم البخاری ) سلام در حقیقت دعا ہے یعنی تم سلامت رہو اللہ پاک کو ایسی دعا دینے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ ہرایک آفت اورتغیر سے پاک ہے وہ ازلی ابدی ہے اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں وہ ساری کائنات کو خود سلامتی بخشنے والا اور سب کی پرورش کرنے والا ہے اسی لیے اس کا نام سلام ہوااسی دعا میں لفظ التحیات اور صلوات اور طیبات وارد ہوتے ہیں تحیات کے معنی سلامتی بقا عظمت ہر نقص سے پاکی ہر قسم کی تعظیم مرادہے یہ عبادات قولی پر صلوات عبادات فعلی پر اورطیبات عبادات مالی پربولاگیا ہے۔ ( فتح الباری )
پس یہ تینوںقسم کی عبادات ایک اللہ ہی کے لیے مخصوص ہیں جو لوگ ان عبادات میں کسی غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں وہ فرشتے ہوں یا انسان یا اور کچھ، وہ خالق کا حق چھین کر جو مخلوق کو دیتے ہیں۔ یہی وہ ظلم عظیم ہے جسے قرآن مجید میں شرک کہا گیا ہے۔ جس کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے “وَمَن یُشرِک بِاللّٰہِ فَقَد حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیہِ الجَنَّۃَ وَمَاوَاہُ النَّارُ”یعنی شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے عبادات قولی میں زبان سے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اس کا نام لینا، عبادات فعلی میں رکوع سجدہ قیام، عبادات مالی میں ہر قسم کا صدقہ خیرات نیاز نذر وغیرہ وغیرہ مراد ہے۔