كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ التَّشَهُّدَ الأَوَّلَ وَاجِبًا لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ: «قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَلَمْ يَرْجِعْ» صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ مَوْلَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَقَالَ مَرَّةً مَوْلَى رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ابْنَ بُحَيْنَةَ وَهُوَ مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَبْدِ مَنَافٍ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ الظَّهْرَ فَقَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ لَمْ يَجْلِسْ فَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا قَضَى الصَّلَاةَ وَانْتَظَرَ النَّاسُ تَسْلِيمَهُ كَبَّرَ وَهُوَ جَالِسٌ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ ثُمَّ سَلَّمَ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: اس شخص کی دلیل جو پہلے تشہد کو ( چار رکعت یا تین رکعت نماز میں ) واجب نہیں جانتا ( یعنی فرض ) کیونکہ آنحضرت ﷺ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں۔
م سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ شعیب نے ہمیں خبر دی، انہوں نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن ہرمز نے بیان کیا جو مولی بن عبد المطلب ( یا مولی ربیعہ بن حارث ) تھے، کہ عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول اور بن ی عبد مناف کے حلیف قبیلہ ازدشنوء ہ سے تعلق رکھتے تھے، نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتوںپر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہوگئے، چنانچہ سارے لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے، جب نماز ختم ہونے والی تھی اور لوگ آپ کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہے تھے تو آپ نے اللہ اکبر کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دوسجدے کئے، پھر سلام پھیرا۔
تشریح :
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر یوںباب منعقد فرمایا ہے باب الامر بالتشھد الاول وسقوطہ بالسھو یعنی تشہد اول کے لیے حکم ہے اور وہ بھول سے رہ جائے تو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں جو لفظ“فقولا التحیات”وارد ہوئے ہیں اس پر علامہ فرماتے ہیں فیہ دلیل لمن قال بوجوب التشھد الاوسط وھو احمد فی المشھود عینہ واللیث واسحاق وھو قول الشافعی والیہ ذھب داود ابو ثور ورواہ النووی عن جمھور المحدثین یعنی اس میں ان حضرات کی دلیل ہے جو درمیانی تشہد کو واجب کہتے ہیں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے اور دیگر ائمہ مذکورین سے بھی بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے جمہور محدثین کرام رحمہ اللہ سے نقل فرمایاہے۔
حدیث مذکور سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت فرمایا ہے کہ تشہد اول اگر فرض ہوتا تو آپ اسے ضرور لوٹاتے مگریہ ایسا ہے کہ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ روایت میں عبداللہ بن بحینہ کے حلیف ہونے کا ذکر ہے عہد جاہلیت میں اگر کوئی شخص یا قبیلہ کسی دوسرے سے یہ عہد کر لیتا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہارے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن تو اسے اس قوم کا حلیف کہا جاتا تھا صحابی مذکوربنی عبد مناف کے حلیف تھے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر یوںباب منعقد فرمایا ہے باب الامر بالتشھد الاول وسقوطہ بالسھو یعنی تشہد اول کے لیے حکم ہے اور وہ بھول سے رہ جائے تو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں جو لفظ“فقولا التحیات”وارد ہوئے ہیں اس پر علامہ فرماتے ہیں فیہ دلیل لمن قال بوجوب التشھد الاوسط وھو احمد فی المشھود عینہ واللیث واسحاق وھو قول الشافعی والیہ ذھب داود ابو ثور ورواہ النووی عن جمھور المحدثین یعنی اس میں ان حضرات کی دلیل ہے جو درمیانی تشہد کو واجب کہتے ہیں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے اور دیگر ائمہ مذکورین سے بھی بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے جمہور محدثین کرام رحمہ اللہ سے نقل فرمایاہے۔
حدیث مذکور سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت فرمایا ہے کہ تشہد اول اگر فرض ہوتا تو آپ اسے ضرور لوٹاتے مگریہ ایسا ہے کہ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ روایت میں عبداللہ بن بحینہ کے حلیف ہونے کا ذکر ہے عہد جاہلیت میں اگر کوئی شخص یا قبیلہ کسی دوسرے سے یہ عہد کر لیتا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہارے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن تو اسے اس قوم کا حلیف کہا جاتا تھا صحابی مذکوربنی عبد مناف کے حلیف تھے۔