كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ المُكْثِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ صحيح - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنِّي لاَ آلُو أَنْ أُصَلِّيَ بِكُمْ، كَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِنَا - قَالَ ثَابِتٌ: كَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ يَصْنَعُ شَيْئًا لَمْ أَرَكُمْ تَصْنَعُونَهُ - كَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ قَامَ حَتَّى يَقُولَ القَائِلُ: قَدْ نَسِيَ، وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ حَتَّى يَقُولَ القَائِلُ: قَدْ نَسِيَ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ثابت سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا تھا بالکل اسی طرح تم لوگوں کو نماز پڑھانے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑتا ہوں۔ ثابت نے بیان کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک ایسا عمل کرتے تھے جسے میں تمہیں کرتے نہیں دیکھتا۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ بھول گئے ہیں اور اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے رہتے کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ بھول گئے ہیں۔
تشریح :
حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسی پر عمل کیا ہے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں باربار رَبِّ اغفِرلِی کہنا مستحب جانا ہے جیسے حذیفہ کی حدیث میں وارد ہے حافظ رحمہ اللہ نے کہا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے ثابت نے یہ گفتگو کی وہ دونوں سجدوں کے درمیان نہ بیٹھتے ہوں گے لیکن حدیث پر چلنے والا جب حدیث صحیح ہو جائے تو کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا۔ حضرت علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقدترک الناس ھذہ السنۃ الثابتۃ بالاحادیث الصحیحۃمحدثھم وفقیھھم ومجتھدھم ومقلدھم فلیت شعری ما الذی عواوا علیہ ذالک واللہ المستعان یعنی صد افسوس کہ لوگوں نے اس سنت کو جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چھوڑ رکھا ہے حتیٰ کہ ان کے محدث اور فقیہ اور مجتہد اور مقلد سب ہی اس سنت کے تارک نظر آتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ اس کے لیے ان لوگوں نے کون سا بہانہ تلاش کیا ہے اور اللہ ہی مددگار ہے۔
دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا بھی مسنون ہے اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاجبرنِی وَاھدِنِی وَارزُقنِی۔
حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسی پر عمل کیا ہے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں باربار رَبِّ اغفِرلِی کہنا مستحب جانا ہے جیسے حذیفہ کی حدیث میں وارد ہے حافظ رحمہ اللہ نے کہا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے ثابت نے یہ گفتگو کی وہ دونوں سجدوں کے درمیان نہ بیٹھتے ہوں گے لیکن حدیث پر چلنے والا جب حدیث صحیح ہو جائے تو کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا۔ حضرت علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقدترک الناس ھذہ السنۃ الثابتۃ بالاحادیث الصحیحۃمحدثھم وفقیھھم ومجتھدھم ومقلدھم فلیت شعری ما الذی عواوا علیہ ذالک واللہ المستعان یعنی صد افسوس کہ لوگوں نے اس سنت کو جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چھوڑ رکھا ہے حتیٰ کہ ان کے محدث اور فقیہ اور مجتہد اور مقلد سب ہی اس سنت کے تارک نظر آتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ اس کے لیے ان لوگوں نے کون سا بہانہ تلاش کیا ہے اور اللہ ہی مددگار ہے۔
دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا بھی مسنون ہے اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاجبرنِی وَاھدِنِی وَارزُقنِی۔