كِتَابُ الأَذَانِ بَابٌ: يَهْوِي بِالتَّكْبِيرِ حِينَ يَسْجُدُ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، غَيْرَ مَرَّةٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَقَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَرَسٍ - وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: مِنْ فَرَسٍ - فَجُحِشَ شِقُّهُ الأَيْمَنُ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ نَعُودُهُ، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَصَلَّى بِنَا قَاعِدًا وَقَعَدْنَا - وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: صَلَّيْنَا قُعُودًا - فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا قَالَ سُفْيَانُ: كَذَا جَاءَ بِهِ مَعْمَرٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: لَقَدْ حَفِظَ كَذَا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلَكَ الحَمْدُ حَفِظْتُ مِنْ شِقِّهِ الأَيْمَنِ، فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَأَنَا عِنْدَهُ، فَجُحِشَ سَاقُهُ الأَيْمَنُ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: سجدہ کے لئے اللہ اکبر کہتا ہوا جھکے
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بار بار زہری سے یہ بیان کیا کہ انہوں نے کہاکہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے زمین پر گر گئے۔ سفیان نے اکثر ( بجائے عن فرس کے ) من فرس کہا۔ اس گرنے سے آپ کادایاں پہلو زخمی ہو گیا تو ہم آپ کی خدمت میں عیادت کی غرض سے حاضر ہوئے۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا اور آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم بھی بیٹھ گئے۔ سفیان نے ایک مرتبہ کہا کہ ہم نے بھی بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے توفرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ر بنا ولک الحمد کہو اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ ( سفیان نے اپنے شاگرد علی بن مدینی سے پوچھا کہ ) کیا معمر نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی تھی۔ ( علی کہتے ہیں کہ ) میں نے کہا جی ہاں۔ اس پر سفیان بولے کہ معمر کو حدیث یاد تھی۔ زہری نے یوں کہا و لک الحمد ۔ سفیان نے یہ بھی کہا کہ مجھے یاد ہے کہ زہری نے یوں کہا آپ کا دایاں بازو چھل گیا تھا۔ جب ہم زہری کے پا س سے نکلے ابن جریج نے کہا میں زہری کے پاس موجود تھا تو انہوں نے یوں کہا کہ آپ کی داہنی پنڈلی چھل گئی۔
تشریح :
زہری نے کبھی تو پہلو کہا، کبھی پنڈلی، بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے سفیان نے کہا جب ہم زہری کے پاس سے نکلے تو ابن جریج نے اس حدیث کو بیان کیا۔ میں ان کے پاس تھا ابن جریج نے پہلو کے بدلے پنڈلی کہا۔ حافظ نے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے۔ اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور ظاہر ہے کہ مقتدی امام کے بعد سجدہ میں جاتا ہے تو اس کی تکبیر بھی امام کے بعد ہی ہوگی۔ اور جب دونوں فعل اس کے امام کے بعد ہوئے تو تکبیر اسی وقت پر آن کر پڑے گی جب مقتدی سجدہ کے لیے جھکے گا اور یہی ترجمہ باب ہے۔
زہری نے کبھی تو پہلو کہا، کبھی پنڈلی، بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے سفیان نے کہا جب ہم زہری کے پاس سے نکلے تو ابن جریج نے اس حدیث کو بیان کیا۔ میں ان کے پاس تھا ابن جریج نے پہلو کے بدلے پنڈلی کہا۔ حافظ نے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے۔ اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور ظاہر ہے کہ مقتدی امام کے بعد سجدہ میں جاتا ہے تو اس کی تکبیر بھی امام کے بعد ہی ہوگی۔ اور جب دونوں فعل اس کے امام کے بعد ہوئے تو تکبیر اسی وقت پر آن کر پڑے گی جب مقتدی سجدہ کے لیے جھکے گا اور یہی ترجمہ باب ہے۔