‌صحيح البخاري - حدیث 8

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ» صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 8

کتاب: ایمان کے بیان میں باب: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مرفوع حدیث کو یہاں اس مقصد کے تحت بیان فرمایا کہ ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہے اور جملہ اعمال صالحہ وارکان اسلام ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام کے دعاوی بایں طور ثابت ہیں کہ یہاں اسلام میں پانچ ارکان کو بنیاد بتلایاگیا اور یہ پانچوں چیزیں بیک وقت ہرایک مسلمان مردوعورت میں جمع نہیں ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے مراتب ایمان میں فرق آ جاتا ہے عورتوں کو ناقص العقل والدین اسی لیے فرمایا گیا کہ وہ ایک ماہ میں چندایام بغیرنماز کے گزارتی ہیں۔ رمضان میں چند روزے وقت پر نہیں رکھ پاتیں۔ اسی طرح کتنے مسلمان نمازی بھی ہیں جن کے حق میں واذا قامواالی الصلوۃ قاموا کسالیٰ ( النساء: 142 ) کہا گیا ہے کہ وہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توبہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہے۔ اس حدیث میں اسلام کی بنیادی چیزوں کو بتلایا گیا ہے۔ جن میں اوّلین بنیادتوحید ورسالت کی شہادت ہے اور قصراسلام کے لیے یہی اصل ستون ہے جس پر پوری عمارت قائم ہے۔ اس کی حیثیت قطب کی ہے جس پر خیمہ اسلام قائم ہے باقی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بہ منزلہ اوتاد کے ہیں۔ جن سے خیمے کی رسیاں باندھ کر اس کو مضبوط ومستحکم بنایا جاتا ہے، ان سب کے مجموعہ کا نام خیمہ ہے جس میں درمیانی اصل ستون ودیگر رسیاں واوتاد چھت سب ہی شامل ہیں۔ ہوبہو یہی مثال اسلام کی ہے۔ جس میں کلمہ شہادت قطب ہے۔ باقی اوتاد وارکان ہیں جن کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس حدیث میں ذکر حج کو ذکرصوم رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ مسلم شریف میں ایک دوسرے طریق سے صوم رمضان حج پر مقدم کیا گیا ہے۔ یہی روایت حضرت سعید بن عبیدہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کی ہے، اس میں بھی صوم رمضان کا ذکر حج سے پہلے ہے اور انھیں حنظلہ سے امام مسلم نے ذکرصوم کو حج پر مقدم کیا ہے۔ گویا حنظلہ سے دونوں طریق منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح سنا ہے۔ کسی موقع پر آپ نے حج کا ذکر پہلے فرمایا اور کسی موقع پر صوم رمضان کا ذکر مقدم کیا۔ اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق وہ بیان بھی صحیح ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے جب والحج و صوم رمضان فرمایا تو راوی نے آپ کو ٹوکا اور صوم رمضان والحج کے لفظوں میں آپ کو لقمہ دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہکذا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے “ والحج و صوم رمضان ” سنا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسلم شریف والے بیان کو اصل قرار دیا ہے اور بخاری شریف کی اس روایت کو بالمعنی قراردیا ہے۔ لیکن خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع تصنیف میں ابواب حج کو ابواب صوم پر مقدم کیا ہے۔ اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی روایت اصل ہے جس میں صوم رمضان سے حج کا ذکر مقدم کیا گیا ہے۔ صیام رمضان کی فرضیت 2ھ میں نازل ہوئی اور حج 6ھ میں فرض قراردیا گیا۔ جوبدنی ومالی ہردوقسم کی عبادات کا مجموعہ ہے۔ اقرار توحید ورسالت کے بعد پہلارکن نماز اور دوسرا رکن زکوۃ قرار پایا جوعلیحدہ علیحدہ بدنی ومالی عبادات ہیں، پھر ان کا مجموعہ حج قرار پایا، ان منازل کے بعد روزہ قرار پایا جس کی شان یہ ہے۔ الصیام لی وانا اجزی بہ ( بخاری کتاب الصوم ) یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دے سکتا ہوں۔ فرشتوں کو تاب نہیں کہ اس کے اجروثواب کو وہ قلم بندکرسکیں۔ اس لحاظ سے روزے کا ذکر آخر میں لایاگیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً ایسے ہی پاکیزہ مقاصد کے پیش نظر ابواب صیام کو نماز، حج کے بعد قلم بندفرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ان ارکان خمسہ کو اپنی اپنی جگہ پر ایسا مقام حاصل ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ سب کی تفصیلات اگرقلم کی جائیں توایک دفتر تیارہوجائے۔ یہ سب مراتب باہم ارتباط تام رکھتے ہیں۔ ہاں زکوٰۃ وحج ایسے ارکان ہیں جن سے غیرمستطیع مسلمان مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ جو لایکلف اللہ نفسا الاوسعہا کے تحت اصول قرآنی کے تحت ہیں۔ حضرت علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر اس لیے نہیں آیا کہ وہ فرض کفایہ ہے جو بعض مخصوص احوال کے ساتھ متعین ہے۔ نیز کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاءوملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی ان سب کی تصدیق ہے۔فیستلزم جمیع ماذکر من المعتقدات اقامت صلوٰۃ سے ٹھہرٹھہر کرنماز ادا کرنا اور مداومت ومحافظت مراد ہے۔ ایتاءزکوٰۃ سے مخصوص طریق پر مال کاایک حصہ نکال دینا مقصود ہے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومن لطائف اسناد ہذا الحدیث جمعہ للتحدیث والاخبار والعنعنۃ وکل رجالہ مکیون الا عبیداللہ فانہ کوفی وہومن الرباعیات واخرج متنہ المولف ایضا فی التفسیر ومسلم فی الایمان خماسی الاسناد۔ یعنی اس حدیث کی سند کے لطائف میں سے یہ ہے کہ اس میں روایت حدیث کے مختلف طریقے تحدیث واخبار و عنعنہ سب جمع ہوگئے ہیں۔ ( جن کی تفصیلات مقدمہ بخاری میں ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ ) اور اس کے جملہ راوی سوائے عبیداللہ کے مکی ہیں، یہ کوفی ہیں اور یہ رباعیات میں سے ہے ( اس کے صرف چارراوی ہیں جو امام بخاری اور آنحضرت کے درمیان واقع ہوئے ہیں ) اس روایت کے متن کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں بھی ذکر فرمایا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں اسے ذکرکیا ہے۔ مگروہاں سند میں پانچ راوی ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مرفوع حدیث کو یہاں اس مقصد کے تحت بیان فرمایا کہ ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہے اور جملہ اعمال صالحہ وارکان اسلام ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام کے دعاوی بایں طور ثابت ہیں کہ یہاں اسلام میں پانچ ارکان کو بنیاد بتلایاگیا اور یہ پانچوں چیزیں بیک وقت ہرایک مسلمان مردوعورت میں جمع نہیں ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے مراتب ایمان میں فرق آ جاتا ہے عورتوں کو ناقص العقل والدین اسی لیے فرمایا گیا کہ وہ ایک ماہ میں چندایام بغیرنماز کے گزارتی ہیں۔ رمضان میں چند روزے وقت پر نہیں رکھ پاتیں۔ اسی طرح کتنے مسلمان نمازی بھی ہیں جن کے حق میں واذا قامواالی الصلوۃ قاموا کسالیٰ ( النساء: 142 ) کہا گیا ہے کہ وہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توبہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہے۔ اس حدیث میں اسلام کی بنیادی چیزوں کو بتلایا گیا ہے۔ جن میں اوّلین بنیادتوحید ورسالت کی شہادت ہے اور قصراسلام کے لیے یہی اصل ستون ہے جس پر پوری عمارت قائم ہے۔ اس کی حیثیت قطب کی ہے جس پر خیمہ اسلام قائم ہے باقی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بہ منزلہ اوتاد کے ہیں۔ جن سے خیمے کی رسیاں باندھ کر اس کو مضبوط ومستحکم بنایا جاتا ہے، ان سب کے مجموعہ کا نام خیمہ ہے جس میں درمیانی اصل ستون ودیگر رسیاں واوتاد چھت سب ہی شامل ہیں۔ ہوبہو یہی مثال اسلام کی ہے۔ جس میں کلمہ شہادت قطب ہے۔ باقی اوتاد وارکان ہیں جن کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس حدیث میں ذکر حج کو ذکرصوم رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ مسلم شریف میں ایک دوسرے طریق سے صوم رمضان حج پر مقدم کیا گیا ہے۔ یہی روایت حضرت سعید بن عبیدہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کی ہے، اس میں بھی صوم رمضان کا ذکر حج سے پہلے ہے اور انھیں حنظلہ سے امام مسلم نے ذکرصوم کو حج پر مقدم کیا ہے۔ گویا حنظلہ سے دونوں طریق منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح سنا ہے۔ کسی موقع پر آپ نے حج کا ذکر پہلے فرمایا اور کسی موقع پر صوم رمضان کا ذکر مقدم کیا۔ اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق وہ بیان بھی صحیح ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے جب والحج و صوم رمضان فرمایا تو راوی نے آپ کو ٹوکا اور صوم رمضان والحج کے لفظوں میں آپ کو لقمہ دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہکذا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے “ والحج و صوم رمضان ” سنا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسلم شریف والے بیان کو اصل قرار دیا ہے اور بخاری شریف کی اس روایت کو بالمعنی قراردیا ہے۔ لیکن خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع تصنیف میں ابواب حج کو ابواب صوم پر مقدم کیا ہے۔ اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی روایت اصل ہے جس میں صوم رمضان سے حج کا ذکر مقدم کیا گیا ہے۔ صیام رمضان کی فرضیت 2ھ میں نازل ہوئی اور حج 6ھ میں فرض قراردیا گیا۔ جوبدنی ومالی ہردوقسم کی عبادات کا مجموعہ ہے۔ اقرار توحید ورسالت کے بعد پہلارکن نماز اور دوسرا رکن زکوۃ قرار پایا جوعلیحدہ علیحدہ بدنی ومالی عبادات ہیں، پھر ان کا مجموعہ حج قرار پایا، ان منازل کے بعد روزہ قرار پایا جس کی شان یہ ہے۔ الصیام لی وانا اجزی بہ ( بخاری کتاب الصوم ) یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دے سکتا ہوں۔ فرشتوں کو تاب نہیں کہ اس کے اجروثواب کو وہ قلم بندکرسکیں۔ اس لحاظ سے روزے کا ذکر آخر میں لایاگیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً ایسے ہی پاکیزہ مقاصد کے پیش نظر ابواب صیام کو نماز، حج کے بعد قلم بندفرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ان ارکان خمسہ کو اپنی اپنی جگہ پر ایسا مقام حاصل ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ سب کی تفصیلات اگرقلم کی جائیں توایک دفتر تیارہوجائے۔ یہ سب مراتب باہم ارتباط تام رکھتے ہیں۔ ہاں زکوٰۃ وحج ایسے ارکان ہیں جن سے غیرمستطیع مسلمان مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ جو لایکلف اللہ نفسا الاوسعہا کے تحت اصول قرآنی کے تحت ہیں۔ حضرت علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر اس لیے نہیں آیا کہ وہ فرض کفایہ ہے جو بعض مخصوص احوال کے ساتھ متعین ہے۔ نیز کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاءوملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی ان سب کی تصدیق ہے۔فیستلزم جمیع ماذکر من المعتقدات اقامت صلوٰۃ سے ٹھہرٹھہر کرنماز ادا کرنا اور مداومت ومحافظت مراد ہے۔ ایتاءزکوٰۃ سے مخصوص طریق پر مال کاایک حصہ نکال دینا مقصود ہے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومن لطائف اسناد ہذا الحدیث جمعہ للتحدیث والاخبار والعنعنۃ وکل رجالہ مکیون الا عبیداللہ فانہ کوفی وہومن الرباعیات واخرج متنہ المولف ایضا فی التفسیر ومسلم فی الایمان خماسی الاسناد۔ یعنی اس حدیث کی سند کے لطائف میں سے یہ ہے کہ اس میں روایت حدیث کے مختلف طریقے تحدیث واخبار و عنعنہ سب جمع ہوگئے ہیں۔ ( جن کی تفصیلات مقدمہ بخاری میں ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ ) اور اس کے جملہ راوی سوائے عبیداللہ کے مکی ہیں، یہ کوفی ہیں اور یہ رباعیات میں سے ہے ( اس کے صرف چارراوی ہیں جو امام بخاری اور آنحضرت کے درمیان واقع ہوئے ہیں ) اس روایت کے متن کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں بھی ذکر فرمایا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں اسے ذکرکیا ہے۔ مگروہاں سند میں پانچ راوی ہیں۔