‌صحيح البخاري - حدیث 797

كِتَابُ الأَذَانِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ [ص:159] يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَأُقَرِّبَنَّ صَلاَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقْنُتُ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ مِنْ صَلاَةِ الظُّهْرِ، وَصَلاَةِ العِشَاءِ، وَصَلاَةِ الصُّبْحِ، بَعْدَ مَا يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَيَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَلْعَنُ الكُفَّارَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 797

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: ہاتھوں کو کہاں تک اٹھانا چاہیے اور ابو حمید...... ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے ہشام دستوائی سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ لو میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے قریب قریب کردوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ظہر، عشاء اور صبح کی آخری رکعات میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔ سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد۔ یعنی مومنین کے حق میں دعا کرتے اور کفار پر لعنت بھیجتے۔
تشریح : کچھ غداروں نے چند مسلمانوں کو دھوکا سے بئر معونہ پر شہید کر دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حادثہ سے سخت صدمہ ہوا اور آپ نے ایک ماہ تک ان پر بددعا کی اور ان پر مسلمان کی رہائی کے لیے بھی دعا فرمائی جو کفار کے ہاں مقید تھے۔ یہاں اسی قنوت کا ذکر ہے۔ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو ہر نماز میں آخر رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔ کچھ غداروں نے چند مسلمانوں کو دھوکا سے بئر معونہ پر شہید کر دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حادثہ سے سخت صدمہ ہوا اور آپ نے ایک ماہ تک ان پر بددعا کی اور ان پر مسلمان کی رہائی کے لیے بھی دعا فرمائی جو کفار کے ہاں مقید تھے۔ یہاں اسی قنوت کا ذکر ہے۔ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو ہر نماز میں آخر رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔