‌صحيح البخاري - حدیث 773

كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ الجَهْرِ بِقِرَاءَةِ صَلاَةِ الفَجْرِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الشُّهُبُ، فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: مَا لَكُمْ؟ فَقَالُوا: حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ، قَالُوا: مَا حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلَّا شَيْءٌ حَدَثَ، فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَانْصَرَفَ أُولَئِكَ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلاَةَ الفَجْرِ، فَلَمَّا سَمِعُوا القُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَهُ، فَقَالُوا: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَهُنَالِكَ حِينَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ، وَقَالُوا: يَا قَوْمَنَا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا، يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ، فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا} [الجن: 2]، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الجِنِّ} [الجن: 1] وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الجِنِّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 773

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: فجر کی نماز میں بلند آواز سے قرات ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے۔ ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے ( شہاب ثاقب ) پھینکے جانے لگے تھے۔ تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور ( جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو ) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں۔ شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے۔ اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا سبب ہوا ہے۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے۔ پھر کہا۔ خدا کی قسم یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو! ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ( قل اوحی الی ) ( آپ کہیئے کہ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے ) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔
تشریح : عکاظ ایک منڈی کا نام تھا، جو مکہ شریف کے قریب قدیم زمانہ سے چلی آرہی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سمیت ایسے عام اجتماعات میں تشریف لے جاتے اور تبلیغ اسلام فرمایا کرتے تھے، چنانچہ آپ اس جگہ جارہے تھے کہ بطن نخلہ وادی میں فجر کا وقت ہوگیا اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فجر کی نماز پڑھائی۔ جس میں جنوں کی ایک جماعت نے قرآن پاک سنا اور مسلمان ہو گئے۔ سورۃ جن میں ان ہی کا ذکر ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں بآواز بلند قرات فرمائی۔ مغرب اور عشاء اور فجر ان وقتوں کی نمازیں جہری کہلاتی ہیں کہ ان کے شروع والی رکعتوں میں بلند آواز سے قرآت کی جاتی ہے۔ عکاظ ایک منڈی کا نام تھا، جو مکہ شریف کے قریب قدیم زمانہ سے چلی آرہی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سمیت ایسے عام اجتماعات میں تشریف لے جاتے اور تبلیغ اسلام فرمایا کرتے تھے، چنانچہ آپ اس جگہ جارہے تھے کہ بطن نخلہ وادی میں فجر کا وقت ہوگیا اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فجر کی نماز پڑھائی۔ جس میں جنوں کی ایک جماعت نے قرآن پاک سنا اور مسلمان ہو گئے۔ سورۃ جن میں ان ہی کا ذکر ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں بآواز بلند قرات فرمائی۔ مغرب اور عشاء اور فجر ان وقتوں کی نمازیں جہری کہلاتی ہیں کہ ان کے شروع والی رکعتوں میں بلند آواز سے قرآت کی جاتی ہے۔