كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ يُطَوِّلُ فِي الأُولَيَيْنِ وَيَحْذِفُ فِي الأُخْرَيَيْنِ صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِسَعْدٍ: لَقَدْ شَكَوْكَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى الصَّلاَةِ، قَالَ: «أَمَّا أَنَا، فَأَمُدُّ فِي الأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ فِي الأُخْرَيَيْنِ، وَلاَ آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» قَالَ: صَدَقْتَ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ أَوْ ظَنِّي بِكَ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: عشاء کی پہلی دو رکعتیں لمبی
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ابوعون محمد بن عبداللہ ثقفی سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر بن سمرہ سے سنا، انھوں نے بیان کیا کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی شکایت کوفہ والوں نے تمام ہی باتوں میں کی ہے، یہاں تک کہ نماز میں بھی۔ انھوں نے کہا کہ میرا عمل تو یہ ہے کہ پہلی دو رکعات میں قرات لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو میں مختصر جس طرح میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تھی اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سچ کہتے ہو۔ تم سے امید بھی اسی کی ہے۔
تشریح :
پہلی دورکعات میں قرات طویل کرنا اوردوسری دورکعات میں مختصرکرنا یعنی صرف سورۃ فاتحہ پر کفایت کرنایہی مسنون طریقہ ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا بیان سن کر اظہاراطمینان فرمایامگر کوفہ کے حالات کے پیش نظر حضرت سعدرضی اللہ عنہ کو وہاں سے بلالیا۔ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کمال دوراندیشی کی دلیل ہے۔ بعض مواقع پر ذمہ داروں کو ایسا اقدام کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
پہلی دورکعات میں قرات طویل کرنا اوردوسری دورکعات میں مختصرکرنا یعنی صرف سورۃ فاتحہ پر کفایت کرنایہی مسنون طریقہ ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا بیان سن کر اظہاراطمینان فرمایامگر کوفہ کے حالات کے پیش نظر حضرت سعدرضی اللہ عنہ کو وہاں سے بلالیا۔ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کمال دوراندیشی کی دلیل ہے۔ بعض مواقع پر ذمہ داروں کو ایسا اقدام کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔