‌صحيح البخاري - حدیث 77

كِتَابُ العِلْمِ بَابٌ: مَتَى يَصِحُّ سَمَاعُ الصَّغِيرِ؟ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: «عَقَلْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِي وَأَنَا ابْنُ خَمْسِ سِنِينَ مِنْ دَلْوٍ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 77

کتاب: علم کے بیان میں باب:بچے کا حدیث سننا کس عمر میں معتبر ہے؟ ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ابومسہر نے، ان سے محمد بن حرب نے، ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔
تشریح : بعض بچے ایسے بھی ذہین، ذکی، فہیم ہوتے ہیں کہ پانچ سال کی عمر ہی میں ان کا بلوغ قابل اعتماد ہو جاتا ہے۔ یہاں ایسا ہی بچہ مراد ہے اس سے ثابت ہواکہ لڑکا یا گدھا اگر نمازی کے آگے سے نکل جائے تونماز فاسد نہ ہوگی۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ دلیل لی ہے کہ لڑکے کی روایت صحیح ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت تک لڑکے ہی تھے۔ مگرآپ کی روایت کو مانا گیا ہے دوسری روایت میں محمود کا ذکر ہے جو بہت ہی کمسن تھے چونکہ ان کو یہ بات یادرہی توان کی روایت معتبر ٹھہری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلی شفقت اور برکت کے لیے ڈالی تھی۔ بعض بچے ایسے بھی ذہین، ذکی، فہیم ہوتے ہیں کہ پانچ سال کی عمر ہی میں ان کا بلوغ قابل اعتماد ہو جاتا ہے۔ یہاں ایسا ہی بچہ مراد ہے اس سے ثابت ہواکہ لڑکا یا گدھا اگر نمازی کے آگے سے نکل جائے تونماز فاسد نہ ہوگی۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ دلیل لی ہے کہ لڑکے کی روایت صحیح ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت تک لڑکے ہی تھے۔ مگرآپ کی روایت کو مانا گیا ہے دوسری روایت میں محمود کا ذکر ہے جو بہت ہی کمسن تھے چونکہ ان کو یہ بات یادرہی توان کی روایت معتبر ٹھہری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلی شفقت اور برکت کے لیے ڈالی تھی۔