كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَنَضَعُ المَوَازِينَ القِسْطَ لِيَوْمِ القِيَامَةِ} [الأنبياء: 47]، وَأَنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ وَقَوْلَهُمْ يُوزَنُ صحيح حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِشْكَابٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ انبیاء میں ) فرمان ’’ اور قیامت کے دن ہم ٹھیک ترازوئیں رکھیں گےاور آدمیوں کےاعمال اوراقوال ان میں تولے جائیں گے
ہم سے احمد بن اشکاب نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے، ان سے عمارہ بن قعقاع نے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے، وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں «سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم» ۔
تشریح :
كلماتان حبيبتان الى الرحمن خفيفتان على اللسان ثقيلتان فى الميزان سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم ا س حدیث کو لاکر حضرت اما م بخاری نے ترازو کااثبات کیا او رآخر میں اس حدیث کو ا س لیے بیان کیا کہ مومن کےمعاملات جودنیا سےمتعلق تھے وہ سب وزن اعمال پرختم ہوں گےاور ا س کے بعد یادوزخ میں چند روز کےلیے جانا ہےیا بہشت میں ہمیشہ کےلیے رہنا ۔ حضرت امام بخاری � کاکمال ہےکہ آ پ نےکتاب کوحدیث انماالاعمال بالنیات سےشروع کیا اس لیے کہ ہرعمل کی مشروعیت نیت ہی سے ہوتی ہے اورنیت ہی پر ثواب ملتاہے اوراس حدیث پر ختم کیاکیونکہ وزن اعمال کاانتہائی نتیجہ ہے۔غرض حضرت امام بخاری نےاپنی کتا ب میں عجیب عجیب لطائف اورظرائف رکھے ہیں جو غو رکےبعد آپ کی کمال عقل اور وفوفہم اور دقت نظر اور باریکی استنباط پردلالت کرتےہیں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام بخاری کی یہ کتاب الجامع الصحیح بتلاتی ہےکہ وہ فن فقہ میں امام الفقہاء اور فن حدیث میں امیرالمؤمنین وسید المحدثین تھے۔روایت اوردرایت ہردو میں امام فن تھے۔الجامع الصحیح کوکتاب التوحید پرختم کرنا بھی حضرت امام کی دقت نظر ہے۔پھر توحید کےذیل میں اسماء وصفات الہی کابیان کرنا او رمعتزلہ وجہمیہ وقدریہ وغیرہ فرق باطلہ کارد کرنا اس طرف اشارہ ہےکہ توحید کاعقیدہ اپنی وسعت کی لحاظ سےازاول تاآخر مسلک سلف کی طرف رہنمائی کرتاہے ۔کتاب وسنت میں اللہ پاک کےلیے جوصفات مذکورہ ہوئی ہیں ان کو بغیر تاویل و تکییف بلاچوں وچرا تسلیم کرنا اقتضائے توحید ہے۔مسئلہ استواء علی العرش نزو ل وصعود وکلام وسمع وبصرہ ویدوکف وساق وجہ ان سب کےلیے ایک ہی اصول مسلک سلف ہےکہ معناه معلوم وكيفيته مجهول والسوال عنه بدعة۔
الغرض کتاب التوحید پر الجامع الصحیح کوختم کرنا اورآخر میں الوزن يومئذن الحق کےتحت حدیث كلمتان حبيبتان الى الرحمن خفيفتان علي اللسان ثقيلتان فى الميزان الخ پر کتاب کاختم عقائد حقہ کی تکمیل پر لطیف اشارہ ہے۔ تعجب ہےدور حاضرہ کےان محققین پرجن کی نگاہوں میں حضرت امام بخاری درایت حدیث سےمحض کورے نظر آتے ہیں جو حضرت امام بخاری مجتہد مطلق تسلیم کرنےکے لیے تیار نہیں سچ ہے۔
كلماتان حبيبتان الى الرحمن خفيفتان على اللسان ثقيلتان فى الميزان سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم ا س حدیث کو لاکر حضرت اما م بخاری نے ترازو کااثبات کیا او رآخر میں اس حدیث کو ا س لیے بیان کیا کہ مومن کےمعاملات جودنیا سےمتعلق تھے وہ سب وزن اعمال پرختم ہوں گےاور ا س کے بعد یادوزخ میں چند روز کےلیے جانا ہےیا بہشت میں ہمیشہ کےلیے رہنا ۔ حضرت امام بخاری � کاکمال ہےکہ آ پ نےکتاب کوحدیث انماالاعمال بالنیات سےشروع کیا اس لیے کہ ہرعمل کی مشروعیت نیت ہی سے ہوتی ہے اورنیت ہی پر ثواب ملتاہے اوراس حدیث پر ختم کیاکیونکہ وزن اعمال کاانتہائی نتیجہ ہے۔غرض حضرت امام بخاری نےاپنی کتا ب میں عجیب عجیب لطائف اورظرائف رکھے ہیں جو غو رکےبعد آپ کی کمال عقل اور وفوفہم اور دقت نظر اور باریکی استنباط پردلالت کرتےہیں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام بخاری کی یہ کتاب الجامع الصحیح بتلاتی ہےکہ وہ فن فقہ میں امام الفقہاء اور فن حدیث میں امیرالمؤمنین وسید المحدثین تھے۔روایت اوردرایت ہردو میں امام فن تھے۔الجامع الصحیح کوکتاب التوحید پرختم کرنا بھی حضرت امام کی دقت نظر ہے۔پھر توحید کےذیل میں اسماء وصفات الہی کابیان کرنا او رمعتزلہ وجہمیہ وقدریہ وغیرہ فرق باطلہ کارد کرنا اس طرف اشارہ ہےکہ توحید کاعقیدہ اپنی وسعت کی لحاظ سےازاول تاآخر مسلک سلف کی طرف رہنمائی کرتاہے ۔کتاب وسنت میں اللہ پاک کےلیے جوصفات مذکورہ ہوئی ہیں ان کو بغیر تاویل و تکییف بلاچوں وچرا تسلیم کرنا اقتضائے توحید ہے۔مسئلہ استواء علی العرش نزو ل وصعود وکلام وسمع وبصرہ ویدوکف وساق وجہ ان سب کےلیے ایک ہی اصول مسلک سلف ہےکہ معناه معلوم وكيفيته مجهول والسوال عنه بدعة۔
الغرض کتاب التوحید پر الجامع الصحیح کوختم کرنا اورآخر میں الوزن يومئذن الحق کےتحت حدیث كلمتان حبيبتان الى الرحمن خفيفتان علي اللسان ثقيلتان فى الميزان الخ پر کتاب کاختم عقائد حقہ کی تکمیل پر لطیف اشارہ ہے۔ تعجب ہےدور حاضرہ کےان محققین پرجن کی نگاہوں میں حضرت امام بخاری درایت حدیث سےمحض کورے نظر آتے ہیں جو حضرت امام بخاری مجتہد مطلق تسلیم کرنےکے لیے تیار نہیں سچ ہے۔