كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ قِرَاءَةِ الفَاجِرِ وَالمُنَافِقِ، وَأَصْوَاتُهُمْ وَتِلاَوَتُهُمْ لاَ تُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ يُحَدِّثُ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ قِيلَ مَا سِيمَاهُمْ قَالَ سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ أَوْ قَالَ التَّسْبِيدُ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید
باب: فاسق اور منافق کی تلاوت کا بیان اور اس کا بیان کہ ان کی آواز اور ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مہدی بن میمون ازدی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن سیرین سے سنا، ان سے معبد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح دور پھینک دئیے جائیں گے جیسے تیر پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ کبھی دین میں نہیں واپس آ سکتے، یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ(خود) واپس آ جائے، پوچھا گیا کہ ان کی علامت کیا ہو گی؟ تو فرمایا کہ ان کی علامت سر منڈوانا ہو گی۔
تشریح :
عراق مدینہ سےمشرق کی طرف ہےوہاں سےخارجی نکلے جنہوں نے حضرت علی اورحضرت عثمان کےخلاف بغاوت کی ۔
حدیث قرن الشیطان والی اصلی معنوں میں: جن لوگوں کو رسو ل اللہ ﷺکی حدیث کے سمجھنے کاملکہ ہے اورجو حدیث شریف کےنکات ودقائق اوررموز سےکما حقہ،واقف اورآشنا ہیں وہ جانتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ کاکلام پاک پرمغز اورمختصر ہےکیونکہ خیر الکلام ما قل دل کلام کی خوبی یہی ہےکہ مختصر ہولیکن مکمل اور پرازمطالب ہو۔
اس اصول کی مدنظر رکھ کر اب احادیث ذیل پرغور کرنےسے حقیقت امر ظاہر ہوجائے گی اور طالبان حق پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ رسول اللہﷺ نےمشرق کی جانب رخ فرماتےہوئے جس فتنہ اورجس شر اورزلزلہ کےخطرات سےہمیں اطلا ع دی دراصل اس اشارہ کامشاالیہ عراق اورہندوستا ن ہے۔کیونکہ عراق توفتنوں اور شرارتوں کی وجہ سے وہ نام پیداکرچکاہے کہ شاید ہی دنیائے اسلام کےممالک میں کوئی ایسا بدترین فتنہ خیز ملک ہو۔اسی لیے رسول اللہﷺ نےبصرہ کےذکر پرفرمایا کہ بها خسف وقذف ورجف وقوم يبيتون ويصبحون قردة وخنازير (ابوداؤد ) یعنی یہاں کےلوگ ایسے شریراوربداعمال ہوں گےاورایسے متلون المزاج، بزدل اورڈھل مل یقین اورناقابل اعتماد ہوں گے کہ رات کوکچھ خیالات لےکر سوئیں گے اوردن کوکچھ اور ہی بن کراٹھیں گے،بندراورسورہوں گے۔
یاتو عادات میں دیوث ، بےغیرت اورمکار ، یا شکل وشباہت میں ۔اوریہی وجہ ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےعراق کےلیے دعانہ فرمائی حالانکہ آپ کوباربار توجہ بھی دلائی گئی کہ حضور! ہماری وہاں سےبہت سی حاجتیں اورضرورتیں ہیں۔بلکہ اس کےجواب میں آنحضرت ﷺ نےاس ملک کی غداری وفتن پروری کےمتعلق کھری کھری باتیں فرمادیں ۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔
عن الحسن قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم بارك لنا فى مدينتنا -اللهم بارك لنا فى شامنا-اللهم بارك لنا فى يمننا -فقال رجل يارسول الله ! فاالعراق فان فيها ميرتنا وفيها حاجاتنا فسكت ثم اعاد عليه فسكت فقال بها يطلع قرن الشيطان وهناك الزلازل والفتن (كنزل العمال ،جلد: هفتم / ص : 16)
حضرت حسن بصری راوی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نےمدینہ اورشام ویمن کےلیے دعائے برکت فرمائی توایک صحابی دست بستہ عرض کرنےلگا۔حضور ﷺ عراق کےلیے بھی دعافرمائیے کیونکہ وہ ملک ہمارے پڑوس ہی میں ہےاورہم وہاں سے غلہ لاتے ہیں اور تجارت وغیرہ اوربہت سےہمارے کاروبار اس ملک سےرہتےہیں توآپﷺ خاموش رہے۔جب اس شخص نےبااصرار عرض کیا توحضور ﷺنےاس کےجواب میں فرمایا کہ اس ملک سےشیطان کاسینگ طلوع ہوگااورفتنے اورفساد ایسے ہوں گےجن سےامت مرحومہ کےافراد میں ایک زلزلہ ساپیدا ہوجائے گا توچونکہ رسول اللہ ﷺ نےصاف طورپر صحابہ کے ذہن نشین کرادیا تھاکہ عراق ہی منشاء فتن اورباعث فساد فی الامت ہوگا اس لیے یہی وجہ ہےکہ وہ (صحابہ ) اوران کےبعد والے لوگ اورشارحین حدیث جواپنی وسیع النظری اورتبحرعلمی اورمعلومات کی بناپر بجد والی حدیث کا اصلی مطلب سمجھ کرعوام کےسامنےپیش کرتے رہے اورانہوں نے ’’ نجد،، ملک عراق کوقرار دیا ۔جودراصل ہےبھی۔
میں حیران ہوں کہ آج کل کے لوگ کس قدر تنگ خیال اورمتعصب واقع ہوئے ہیں کہ ذرا سےاختلاف پررافضیوں کی سی تبرا بازی پراتر آتے ہیں اوراپنی اصلیت سےبےخبر ہوکر منین قاتین وصالحین پرلعنتیں بھیجنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ انہی کاہم خیال شیخ دحلان اپنی کتاب کےص 35پرلکھتا ہے۔
’’ ایسے امر کےسبب سےجس کاثبوت براہین سےہے اہل اسلام کی تکفیرپراقدام کیسے ہوسکتا ہوسکتا ہے۔(توپھر کیوں کرتے ہو۔آہ يقولون بافواههم ماليس فى قلوبهم ) حدیث صحیح میں ہے کہ جوشخص اپنے مسلمان بھائی کوکافر کہہ کرپکارے گا تو ان میں سے ایک پریہ لوٹے گی ۔اگر وہ ایسا ہےجب تواس پرپڑے گی ورنہ کہنے والے پر۔اس بارہ میں احتیاط واجب ہے۔اہل قبلہ میں سے کسی پر حکم کفر ایسے ہی امر کےباعث کیاجاے جوواضح اورقاطع ہو(الداراالسنیہ فی ردالوہابیہ اردو ص 36)
میں متعجب ہوں کہ اتنی بین صراحت کےہوتےہوئے پھر یہ لوگ کیوں ’’نجدہائے،،پکارتے ہوئے شیخ محمدبن عبدالوہاب � اوران کے جانشینوں کوکوس رہے ہیں ۔ملاحظہ ہوکہ جونجد فتنوں کاباعث ہےحقیقت میں وہ عراق ہی ہے اورجومشرق ہےوہ ہندوستان میں ’’ دارالتکفیر ،، بریلی ہے۔ کنز العمال میں ’’ اماکن مذمومہ ،، کےتحت میں آتا ہے ۔مسند عمر ابى مجاز قال اراد عمران لا يدع مصرامن الامصار الا اتاه فقال له كعب لاتاتى العراق فان فيه تسعة اعشار الشر(كنز العمال)یعنی حضرت عمر نےاپنے عہد حکومت میں تمام ممالک محروسہ کادورہ کرنےکا ارادہ ظاہر فرمایا توحضرت کعب نےعرض کیاکہ آپ ہرجگہ جائیں لیکن عراق کی طرف نہ جائیں کیونکہ وہاں تونوحصے برائی اورشر موجود ہے۔،،
(2) عن ابى ادريس قال قدم علينا عمرابن الخطاب الشام فقال انى اريد ان اتى العراق فقال له كعب الاخبار اعيذك بالله ياامير المؤمنين من ذلك قال وماتكره من ذلك قال بها تسعة اعشار الشر وكل داء عضال وعصاة الجن وهاروت وماروت وبها ياخل ابليس دفرخ-
ابوادریس کہتے ہیں کہ حضرت عمر جب شام میں تشریف فرماہوئے توآپ نےوہاں سےپھر عراق جانے کاارادہ ظاہ رفرمایا تو حضرت کعب احبار نےعرض کیا، یا امیرالمؤمنین !خدا کی پناہ وہاں جانے کاخیال تک نہ فرمائیں۔حضرت عمر نےبراہ استعجاب اس مخالفت اورکراہت عراق کاسبب پوچھا توحضرت کعب نے جواب میں عرض کیا کہ حضور تونوحصے شراور فساد ہے۔سخت سخت بیماریاں اورسرکش اورگمراہ کن جن ،ہاروت وماروت ہیں اور وہی شیطان کامرکز ہےاوراسی جگہ اس نے انڈے بچے دےرکھے ہیں۔،،
اللہ اللہ کس قدر پر مغز کلام ہےجوکھلے کھلے اورصاف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کےارشاد ’’ بها يطلع قرن الشيطان وهناك الزلازل والفتن ،، کی صاف صاف صراحت کررہے ہیں۔
اگر خودعلم نہیں تھا توکسی اہل علم ہی سےاس حدیث کی تشریح اورمطلب پوچھ لیتے ، ماشاءاللہ پنجاب اورہندوستان میں ہزاروں علماء اہل حدیث موجود ہیں ۔كثرالله سوادهم وعم فيوضم ) اورپھر اس کوتاہ نظری پرفخر کرتےہوئے یہ لوگ شارحین حدیث رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین پرلے دے کرتے اوران پراعترراضات کرتےاور آواز ے کستےہیں۔
اب ان تصریحات کےہوتےہوئے پھر نجد ہی کوقرن الشیطان کامطلع رٹے جانا کون ساانصاف اورکہاں کی عقل مندی ہےجب کہ مطالعہ حدیث سےیہ صاف صاف علم ہوچکا ہے کہ فتنہ اورشر قرن الشیطان عراق ہی سے طلوع ہوں گے جہاں بصرہ بغداد اور کوفہ وغیرہ شہر ہیں ۔
قابل غوربات : یہ ہےکہ ایک طرف تورسول اللہﷺ نجد کےلوگوں یعنی بنوتمیم کی تعریف وتوصیف فرماتے ہیں اوران کوغیور مجاہدین اورعقلمندکاخطاب دےرہےہیں۔مسند ابى هريرة ذكرت القبائل عندرسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله فما تقول فى تميم قال(صلى الله عليه وسلم)يابى الله التميم الاخيرا –البت الاقدام عظام الهام رجع الاحلام هفبته حمراء لا يضر من ناواها اشد الناس على الدجال اخرالزمان (رجال ثقات )كنز العمال ،ج 6 / ص 144)
’’ یعنی رسول اللہ کے سامنے قبائل عرب کاذکر ہورہا تھا پہلے ہوازن اوربنو عامرکاتذکرہ آیا پھرلوگوں نے نبی تمیم کےمتعلق استفسار کیاتوحضو ر ﷺ نےالفاظ ذیل میں ان کی تعریف وتکریم ظاہر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نےبہتری کو اس قوم کےلیےواجب کردیا(اللہ اللہ ) یہ لوگ (یعنی نجدی) غیرمتزلزل طبائع کےمالک ، بڑے سروالے عقل مند باتدبیر مکمل سیاست واں اورسرخ نیلہ والے ہیں۔کوئی طاقت خواہ کتنی ہی چیخ پکار کرے اوران کےبرخلاف ہرچند پروپیگنڈا پھیلائے ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکےگی۔ہاں وہ اخیر زمانہ کےدجال پرجولوگ ان کے برخلاف نہایت متعصب اورضدی بداخلاق ہوں گےاورجھگڑالو اسلام کے دشمن اور فتن دوز ہوں گےنہایت سختی سےشعائر اسلام کی پابندی کرتے ہوئے باوجود ہزاروں دھکمیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کےغالب رہیں گے۔ وظھر امراللہ و ھم کارھون ۔یعنی اخیر زمانہ میں دجال کےمقاتل کےمقابل بڑے مضبوط اورنہ ڈرنے والے لوگ ہوں گے۔ولا یخافون لومۃ لائم ۔،،
غور فرمائیے کہ اخیر زمانہ میں جب کہ حقیقی اسلام کی تعلیم دنیا میں بہت کم ہوگی ،جہل وباطل ،کفر شرک ، پیرپرستی اورقبہ پرستی عا م ہوگی ۔قدم قدم پرایک آدمی لغزش کھائے گا۔یصبح مومنا ویمسی کافرا اور وہ زمانہ ہوگا جس کےمتلق رسول اللہ ﷺنے فرمایا ۔ من تمسك بسنتى عند فساد امتي فله اجر مائة شهيد – یعنی ’’ اس وقت جوسنت رسول اللہ ﷺ پرعمل پیرا ہوں گے ان میں کاہر ایک درجہ میں سوشہید کےبرابر ہوگا،، غورکریں کہ ایسے زمانہ مین جن لوگوں کی رسول اللہ ﷺ تعریف فرمائیں کہ اخیرزمانہ میں دجال پر بہت سخت ہوں گے۔بھلا اللہ کے ہاں ان کی کہاں تک قدر ہوگی اوروہ کس عالی رتبہ کےلوگ ہوں گے۔
یہ امر مختاج بیان نہیں ہےاورہر ایک مخالفت مطابق اس بات کاقائل ہےکہ موجود ہ اہل نجد اورمجدد اسلام شیخ محمدبن عبدالوہاب نوراللہ مرقدہ بنی تمیم ہی سے ہیں۔اوراب موجودہ سلطان ایدہ اللہ بنصر اہ اوران کی قوم نجدی بھی بنی تمیم ہی سے ہیں ان کازبردست معانددحلان لکھتاہے کہ’’ یہ بات صراحت سےمعلوم ہوچکی ہےکہ یہ مغرور (یعنی محمد بن عبدالوہاب �) تمیم سےہے۔،، اورسید علوی جلاء الظلام میں لکھتا ہے۔’’ یہ مفرور محمدبن عبدالوہاب قبیلہ بنی تمیم سےہے۔نیز مولوی قطب الدین فرنگی محل لکھؤ والے بھی اپنے رسالہ ’’ آشوب نجد،، میں تسلیم کرتے ہیں کہ ’’شیخ محمدبن عبدالوہاب انا راللہ برہانہ قبیلہ بنی تمیم میں سے ہیں ،، اس کے علاوہ تاریخی طور پربھی یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہےکہ نجدی قوم بنی تمیم میں سے ہے۔ان حالات کےبعد غوفرمائیے کہ حدیث میں اس قوم کورسول اللہ ﷺ نےکس بلند پایہ کی قوم فرمایاکہ :
عن ابى هريرة قال مازالت احب بنى تميم منذثلاث سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول هم اشد امتي على الدجال وقال وجاءت صدقاتهم فقال هذه صدقات قومنا وكانت سبية منهم عند عائشة فقال اعتقيها فانها من ولد اسمعيل (بخاری احمد ی، ص،445) ’’ ابوہریرہ جیسے جلیل القدر صحابی فرماتےہیں کہ بھائی میں تو نبی تمیم کوپڑا عزیز رکھتا ہوں ۔اس کی وجوہات ذیل ہیں۔
(1)رسول اللہ ﷺ نے ان کےحق میں فرمایا کہ یہ لوگ میرے تمام امت سےدجال پرسخت ہوں گے۔
(2) جب بنو تمیم کی زکوۃ کامال جمع ہوکر آیاتوحضور ﷺ نےفرمایا کہ آج ہماری کےصدقات آئے ہیں۔
(3) یہ لوگ (نجدی) اولاد اسماعیل میں سےہیں ۔ثبوت یہ ہےکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کےپاس ایک نجد ی لونڈی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کوجب علم ہوا آپ نےفرمایا اے عائشہ ! اسے آزاد کردے کیونکہ یہ اوالاد اسماعیل سےہے۔،،
اب غو ر فرمائیں کہ ایک طرف توآنحضور ﷺ نےنجدیوں کواولاد اسماعیل سےفرمایا۔ پکے مسلمان ،عقل مند ، مدبر اورب باسیات کاخطاب دیا۔وہاں کےلوگوں کوجنت کی بشارت دی۔ جاء رجل الى رسو ل الله عليه وسلم من اهل نجد فاذا هو يسئل عن الاسلام فقال صلى الله عليه وسلم من سره ان ينظر الى رجل من اهل الجنة فلينظر الى هذا
یعنی ایک نجدی نےرسول اللہ ﷺ سےچند سوالات کئے اوران کےجوابات تسلی بخش پاکر جارہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نےفرمایا کہ جو شخص جنتی آدمی کودیکھ کرخوش ہونا چاہے وہ اس نجد یکودیکھ لے۔
کیا یہ ہوسکتا ہےکہ اسی زبان سےرسول اللہ ﷺ اس قوم کی مذمت فرمائیں اور اس قوم کوقرن الشیطان سےتعبیر فرمائیں اور ان کےلیے دعا نہ فرمائیں (خدا را انصاف)کہ ان رسمی حنفیوں بریلویوں ،رضائیوں ،دیداریوں اورجماعتیوں ( ھداھم للہ الی صراط مستقیم ) نے رسو ل اللہ ﷺ کی یہی عزت اوریہی قدر کی کہ پبلک کےسامنے عیاں کردیا کہ ہاں رسو ل اللہ ﷺ (معاذ اللہ) ایک طرف توایک شخص کی منہ پرتعریف فرماتے تھے اور جب وہ چاتا پھر مذمت اور اس کےلیے بددعا ۔آہ ثم آہ۔فما لهؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثا ۔(انصاف ۔انصاف )
عراق مدینہ سےمشرق کی طرف ہےوہاں سےخارجی نکلے جنہوں نے حضرت علی اورحضرت عثمان کےخلاف بغاوت کی ۔
حدیث قرن الشیطان والی اصلی معنوں میں: جن لوگوں کو رسو ل اللہ ﷺکی حدیث کے سمجھنے کاملکہ ہے اورجو حدیث شریف کےنکات ودقائق اوررموز سےکما حقہ،واقف اورآشنا ہیں وہ جانتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ کاکلام پاک پرمغز اورمختصر ہےکیونکہ خیر الکلام ما قل دل کلام کی خوبی یہی ہےکہ مختصر ہولیکن مکمل اور پرازمطالب ہو۔
اس اصول کی مدنظر رکھ کر اب احادیث ذیل پرغور کرنےسے حقیقت امر ظاہر ہوجائے گی اور طالبان حق پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ رسول اللہﷺ نےمشرق کی جانب رخ فرماتےہوئے جس فتنہ اورجس شر اورزلزلہ کےخطرات سےہمیں اطلا ع دی دراصل اس اشارہ کامشاالیہ عراق اورہندوستا ن ہے۔کیونکہ عراق توفتنوں اور شرارتوں کی وجہ سے وہ نام پیداکرچکاہے کہ شاید ہی دنیائے اسلام کےممالک میں کوئی ایسا بدترین فتنہ خیز ملک ہو۔اسی لیے رسول اللہﷺ نےبصرہ کےذکر پرفرمایا کہ بها خسف وقذف ورجف وقوم يبيتون ويصبحون قردة وخنازير (ابوداؤد ) یعنی یہاں کےلوگ ایسے شریراوربداعمال ہوں گےاورایسے متلون المزاج، بزدل اورڈھل مل یقین اورناقابل اعتماد ہوں گے کہ رات کوکچھ خیالات لےکر سوئیں گے اوردن کوکچھ اور ہی بن کراٹھیں گے،بندراورسورہوں گے۔
یاتو عادات میں دیوث ، بےغیرت اورمکار ، یا شکل وشباہت میں ۔اوریہی وجہ ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےعراق کےلیے دعانہ فرمائی حالانکہ آپ کوباربار توجہ بھی دلائی گئی کہ حضور! ہماری وہاں سےبہت سی حاجتیں اورضرورتیں ہیں۔بلکہ اس کےجواب میں آنحضرت ﷺ نےاس ملک کی غداری وفتن پروری کےمتعلق کھری کھری باتیں فرمادیں ۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔
عن الحسن قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم بارك لنا فى مدينتنا -اللهم بارك لنا فى شامنا-اللهم بارك لنا فى يمننا -فقال رجل يارسول الله ! فاالعراق فان فيها ميرتنا وفيها حاجاتنا فسكت ثم اعاد عليه فسكت فقال بها يطلع قرن الشيطان وهناك الزلازل والفتن (كنزل العمال ،جلد: هفتم / ص : 16)
حضرت حسن بصری راوی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نےمدینہ اورشام ویمن کےلیے دعائے برکت فرمائی توایک صحابی دست بستہ عرض کرنےلگا۔حضور ﷺ عراق کےلیے بھی دعافرمائیے کیونکہ وہ ملک ہمارے پڑوس ہی میں ہےاورہم وہاں سے غلہ لاتے ہیں اور تجارت وغیرہ اوربہت سےہمارے کاروبار اس ملک سےرہتےہیں توآپﷺ خاموش رہے۔جب اس شخص نےبااصرار عرض کیا توحضور ﷺنےاس کےجواب میں فرمایا کہ اس ملک سےشیطان کاسینگ طلوع ہوگااورفتنے اورفساد ایسے ہوں گےجن سےامت مرحومہ کےافراد میں ایک زلزلہ ساپیدا ہوجائے گا توچونکہ رسول اللہ ﷺ نےصاف طورپر صحابہ کے ذہن نشین کرادیا تھاکہ عراق ہی منشاء فتن اورباعث فساد فی الامت ہوگا اس لیے یہی وجہ ہےکہ وہ (صحابہ ) اوران کےبعد والے لوگ اورشارحین حدیث جواپنی وسیع النظری اورتبحرعلمی اورمعلومات کی بناپر بجد والی حدیث کا اصلی مطلب سمجھ کرعوام کےسامنےپیش کرتے رہے اورانہوں نے ’’ نجد،، ملک عراق کوقرار دیا ۔جودراصل ہےبھی۔
میں حیران ہوں کہ آج کل کے لوگ کس قدر تنگ خیال اورمتعصب واقع ہوئے ہیں کہ ذرا سےاختلاف پررافضیوں کی سی تبرا بازی پراتر آتے ہیں اوراپنی اصلیت سےبےخبر ہوکر منین قاتین وصالحین پرلعنتیں بھیجنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ انہی کاہم خیال شیخ دحلان اپنی کتاب کےص 35پرلکھتا ہے۔
’’ ایسے امر کےسبب سےجس کاثبوت براہین سےہے اہل اسلام کی تکفیرپراقدام کیسے ہوسکتا ہوسکتا ہے۔(توپھر کیوں کرتے ہو۔آہ يقولون بافواههم ماليس فى قلوبهم ) حدیث صحیح میں ہے کہ جوشخص اپنے مسلمان بھائی کوکافر کہہ کرپکارے گا تو ان میں سے ایک پریہ لوٹے گی ۔اگر وہ ایسا ہےجب تواس پرپڑے گی ورنہ کہنے والے پر۔اس بارہ میں احتیاط واجب ہے۔اہل قبلہ میں سے کسی پر حکم کفر ایسے ہی امر کےباعث کیاجاے جوواضح اورقاطع ہو(الداراالسنیہ فی ردالوہابیہ اردو ص 36)
میں متعجب ہوں کہ اتنی بین صراحت کےہوتےہوئے پھر یہ لوگ کیوں ’’نجدہائے،،پکارتے ہوئے شیخ محمدبن عبدالوہاب � اوران کے جانشینوں کوکوس رہے ہیں ۔ملاحظہ ہوکہ جونجد فتنوں کاباعث ہےحقیقت میں وہ عراق ہی ہے اورجومشرق ہےوہ ہندوستان میں ’’ دارالتکفیر ،، بریلی ہے۔ کنز العمال میں ’’ اماکن مذمومہ ،، کےتحت میں آتا ہے ۔مسند عمر ابى مجاز قال اراد عمران لا يدع مصرامن الامصار الا اتاه فقال له كعب لاتاتى العراق فان فيه تسعة اعشار الشر(كنز العمال)یعنی حضرت عمر نےاپنے عہد حکومت میں تمام ممالک محروسہ کادورہ کرنےکا ارادہ ظاہر فرمایا توحضرت کعب نےعرض کیاکہ آپ ہرجگہ جائیں لیکن عراق کی طرف نہ جائیں کیونکہ وہاں تونوحصے برائی اورشر موجود ہے۔،،
(2) عن ابى ادريس قال قدم علينا عمرابن الخطاب الشام فقال انى اريد ان اتى العراق فقال له كعب الاخبار اعيذك بالله ياامير المؤمنين من ذلك قال وماتكره من ذلك قال بها تسعة اعشار الشر وكل داء عضال وعصاة الجن وهاروت وماروت وبها ياخل ابليس دفرخ-
ابوادریس کہتے ہیں کہ حضرت عمر جب شام میں تشریف فرماہوئے توآپ نےوہاں سےپھر عراق جانے کاارادہ ظاہ رفرمایا تو حضرت کعب احبار نےعرض کیا، یا امیرالمؤمنین !خدا کی پناہ وہاں جانے کاخیال تک نہ فرمائیں۔حضرت عمر نےبراہ استعجاب اس مخالفت اورکراہت عراق کاسبب پوچھا توحضرت کعب نے جواب میں عرض کیا کہ حضور تونوحصے شراور فساد ہے۔سخت سخت بیماریاں اورسرکش اورگمراہ کن جن ،ہاروت وماروت ہیں اور وہی شیطان کامرکز ہےاوراسی جگہ اس نے انڈے بچے دےرکھے ہیں۔،،
اللہ اللہ کس قدر پر مغز کلام ہےجوکھلے کھلے اورصاف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کےارشاد ’’ بها يطلع قرن الشيطان وهناك الزلازل والفتن ،، کی صاف صاف صراحت کررہے ہیں۔
اگر خودعلم نہیں تھا توکسی اہل علم ہی سےاس حدیث کی تشریح اورمطلب پوچھ لیتے ، ماشاءاللہ پنجاب اورہندوستان میں ہزاروں علماء اہل حدیث موجود ہیں ۔كثرالله سوادهم وعم فيوضم ) اورپھر اس کوتاہ نظری پرفخر کرتےہوئے یہ لوگ شارحین حدیث رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین پرلے دے کرتے اوران پراعترراضات کرتےاور آواز ے کستےہیں۔
اب ان تصریحات کےہوتےہوئے پھر نجد ہی کوقرن الشیطان کامطلع رٹے جانا کون ساانصاف اورکہاں کی عقل مندی ہےجب کہ مطالعہ حدیث سےیہ صاف صاف علم ہوچکا ہے کہ فتنہ اورشر قرن الشیطان عراق ہی سے طلوع ہوں گے جہاں بصرہ بغداد اور کوفہ وغیرہ شہر ہیں ۔
قابل غوربات : یہ ہےکہ ایک طرف تورسول اللہﷺ نجد کےلوگوں یعنی بنوتمیم کی تعریف وتوصیف فرماتے ہیں اوران کوغیور مجاہدین اورعقلمندکاخطاب دےرہےہیں۔مسند ابى هريرة ذكرت القبائل عندرسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله فما تقول فى تميم قال(صلى الله عليه وسلم)يابى الله التميم الاخيرا –البت الاقدام عظام الهام رجع الاحلام هفبته حمراء لا يضر من ناواها اشد الناس على الدجال اخرالزمان (رجال ثقات )كنز العمال ،ج 6 / ص 144)
’’ یعنی رسول اللہ کے سامنے قبائل عرب کاذکر ہورہا تھا پہلے ہوازن اوربنو عامرکاتذکرہ آیا پھرلوگوں نے نبی تمیم کےمتعلق استفسار کیاتوحضو ر ﷺ نےالفاظ ذیل میں ان کی تعریف وتکریم ظاہر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نےبہتری کو اس قوم کےلیےواجب کردیا(اللہ اللہ ) یہ لوگ (یعنی نجدی) غیرمتزلزل طبائع کےمالک ، بڑے سروالے عقل مند باتدبیر مکمل سیاست واں اورسرخ نیلہ والے ہیں۔کوئی طاقت خواہ کتنی ہی چیخ پکار کرے اوران کےبرخلاف ہرچند پروپیگنڈا پھیلائے ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکےگی۔ہاں وہ اخیر زمانہ کےدجال پرجولوگ ان کے برخلاف نہایت متعصب اورضدی بداخلاق ہوں گےاورجھگڑالو اسلام کے دشمن اور فتن دوز ہوں گےنہایت سختی سےشعائر اسلام کی پابندی کرتے ہوئے باوجود ہزاروں دھکمیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کےغالب رہیں گے۔ وظھر امراللہ و ھم کارھون ۔یعنی اخیر زمانہ میں دجال کےمقاتل کےمقابل بڑے مضبوط اورنہ ڈرنے والے لوگ ہوں گے۔ولا یخافون لومۃ لائم ۔،،
غور فرمائیے کہ اخیر زمانہ میں جب کہ حقیقی اسلام کی تعلیم دنیا میں بہت کم ہوگی ،جہل وباطل ،کفر شرک ، پیرپرستی اورقبہ پرستی عا م ہوگی ۔قدم قدم پرایک آدمی لغزش کھائے گا۔یصبح مومنا ویمسی کافرا اور وہ زمانہ ہوگا جس کےمتلق رسول اللہ ﷺنے فرمایا ۔ من تمسك بسنتى عند فساد امتي فله اجر مائة شهيد – یعنی ’’ اس وقت جوسنت رسول اللہ ﷺ پرعمل پیرا ہوں گے ان میں کاہر ایک درجہ میں سوشہید کےبرابر ہوگا،، غورکریں کہ ایسے زمانہ مین جن لوگوں کی رسول اللہ ﷺ تعریف فرمائیں کہ اخیرزمانہ میں دجال پر بہت سخت ہوں گے۔بھلا اللہ کے ہاں ان کی کہاں تک قدر ہوگی اوروہ کس عالی رتبہ کےلوگ ہوں گے۔
یہ امر مختاج بیان نہیں ہےاورہر ایک مخالفت مطابق اس بات کاقائل ہےکہ موجود ہ اہل نجد اورمجدد اسلام شیخ محمدبن عبدالوہاب نوراللہ مرقدہ بنی تمیم ہی سے ہیں۔اوراب موجودہ سلطان ایدہ اللہ بنصر اہ اوران کی قوم نجدی بھی بنی تمیم ہی سے ہیں ان کازبردست معانددحلان لکھتاہے کہ’’ یہ بات صراحت سےمعلوم ہوچکی ہےکہ یہ مغرور (یعنی محمد بن عبدالوہاب �) تمیم سےہے۔،، اورسید علوی جلاء الظلام میں لکھتا ہے۔’’ یہ مفرور محمدبن عبدالوہاب قبیلہ بنی تمیم سےہے۔نیز مولوی قطب الدین فرنگی محل لکھؤ والے بھی اپنے رسالہ ’’ آشوب نجد،، میں تسلیم کرتے ہیں کہ ’’شیخ محمدبن عبدالوہاب انا راللہ برہانہ قبیلہ بنی تمیم میں سے ہیں ،، اس کے علاوہ تاریخی طور پربھی یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہےکہ نجدی قوم بنی تمیم میں سے ہے۔ان حالات کےبعد غوفرمائیے کہ حدیث میں اس قوم کورسول اللہ ﷺ نےکس بلند پایہ کی قوم فرمایاکہ :
عن ابى هريرة قال مازالت احب بنى تميم منذثلاث سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول هم اشد امتي على الدجال وقال وجاءت صدقاتهم فقال هذه صدقات قومنا وكانت سبية منهم عند عائشة فقال اعتقيها فانها من ولد اسمعيل (بخاری احمد ی، ص،445) ’’ ابوہریرہ جیسے جلیل القدر صحابی فرماتےہیں کہ بھائی میں تو نبی تمیم کوپڑا عزیز رکھتا ہوں ۔اس کی وجوہات ذیل ہیں۔
(1)رسول اللہ ﷺ نے ان کےحق میں فرمایا کہ یہ لوگ میرے تمام امت سےدجال پرسخت ہوں گے۔
(2) جب بنو تمیم کی زکوۃ کامال جمع ہوکر آیاتوحضور ﷺ نےفرمایا کہ آج ہماری کےصدقات آئے ہیں۔
(3) یہ لوگ (نجدی) اولاد اسماعیل میں سےہیں ۔ثبوت یہ ہےکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کےپاس ایک نجد ی لونڈی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کوجب علم ہوا آپ نےفرمایا اے عائشہ ! اسے آزاد کردے کیونکہ یہ اوالاد اسماعیل سےہے۔،،
اب غو ر فرمائیں کہ ایک طرف توآنحضور ﷺ نےنجدیوں کواولاد اسماعیل سےفرمایا۔ پکے مسلمان ،عقل مند ، مدبر اورب باسیات کاخطاب دیا۔وہاں کےلوگوں کوجنت کی بشارت دی۔ جاء رجل الى رسو ل الله عليه وسلم من اهل نجد فاذا هو يسئل عن الاسلام فقال صلى الله عليه وسلم من سره ان ينظر الى رجل من اهل الجنة فلينظر الى هذا
یعنی ایک نجدی نےرسول اللہ ﷺ سےچند سوالات کئے اوران کےجوابات تسلی بخش پاکر جارہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نےفرمایا کہ جو شخص جنتی آدمی کودیکھ کرخوش ہونا چاہے وہ اس نجد یکودیکھ لے۔
کیا یہ ہوسکتا ہےکہ اسی زبان سےرسول اللہ ﷺ اس قوم کی مذمت فرمائیں اور اس قوم کوقرن الشیطان سےتعبیر فرمائیں اور ان کےلیے دعا نہ فرمائیں (خدا را انصاف)کہ ان رسمی حنفیوں بریلویوں ،رضائیوں ،دیداریوں اورجماعتیوں ( ھداھم للہ الی صراط مستقیم ) نے رسو ل اللہ ﷺ کی یہی عزت اوریہی قدر کی کہ پبلک کےسامنے عیاں کردیا کہ ہاں رسو ل اللہ ﷺ (معاذ اللہ) ایک طرف توایک شخص کی منہ پرتعریف فرماتے تھے اور جب وہ چاتا پھر مذمت اور اس کےلیے بددعا ۔آہ ثم آہ۔فما لهؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثا ۔(انصاف ۔انصاف )