كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ المَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: شَكَا أَهْلُ الكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا، فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لاَ يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ إِنَّ هَؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لاَ تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ «فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، أُصَلِّي صَلاَةَ العِشَاءِ، فَأَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الأُخْرَيَيْنِ»، قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إِلَى الكُوفَةِ، فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ: أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لاَ يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ، وَلاَ يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلاَ يَعْدِلُ فِي القَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ: شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ، أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ المَلِكِ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ، قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: امام اور مقتدی کے لئے قرات کا واجب ہونا
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالملک بن عمیر نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، کہا کہ اہل کوفہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو علیحدہ کر کے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں تو انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں ( قرآت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو ( سنئیے کہ ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ خدا کی قسم میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔
تشریح :
حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے نماز کی جوتفصیل بیان کی اوراس کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیااسی سے باب کے جملہ مقاصد ثابت ہوگئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، یہ مستجاب الدعوات تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی۔ عہدفاروقی میں یہ کوفہ کے گورنر تھے۔ مگرکوفہ والوں کی بے وفائی مشہور ہے۔ انھوں نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں۔ آخرحضرت عمررضی اللہ عنہ نے وہاں کے حالات کا اندازہ فرماکر حضرت عماررضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بیت المال کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔ حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ جنگ احد میں انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کے لیے بے نظیر جرات کا ثبوت دیا۔ جس سے خوش ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے سعد! تیرچلا، تجھ پر میرے ماںباپ فداہوں۔ یہ فضیلت کسی اورصحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ جنگ ایران میں انھوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے جن سے اسلامی تاریخ بھرپورہے۔ سارے ایران پر اسلامی پرچم لہرایا۔ رستم ثانی کو میدان کارزار میں بڑی آسانی سے مارلیا۔ جواکیلا ہزار آدمیوں کے مقابلہ پربھاری سمجھا جاتا تھا۔
حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے اسامہ بن قتادہ کوفی کے حق میں بددعا کی جس نے آپ پرالزامات لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور وہ نتیجہ ہوا جس کا یہاں ذکر موجود ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی پرناحق کوئی الزام لگانابہت بڑا گناہ ہے۔ ایسی حالت میں مظلوم کی بددعا سے ڈرنا ایمان کی خاصیت ہے۔
حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے نماز کی جوتفصیل بیان کی اوراس کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیااسی سے باب کے جملہ مقاصد ثابت ہوگئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، یہ مستجاب الدعوات تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی۔ عہدفاروقی میں یہ کوفہ کے گورنر تھے۔ مگرکوفہ والوں کی بے وفائی مشہور ہے۔ انھوں نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں۔ آخرحضرت عمررضی اللہ عنہ نے وہاں کے حالات کا اندازہ فرماکر حضرت عماررضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بیت المال کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔ حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ جنگ احد میں انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کے لیے بے نظیر جرات کا ثبوت دیا۔ جس سے خوش ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے سعد! تیرچلا، تجھ پر میرے ماںباپ فداہوں۔ یہ فضیلت کسی اورصحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ جنگ ایران میں انھوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے جن سے اسلامی تاریخ بھرپورہے۔ سارے ایران پر اسلامی پرچم لہرایا۔ رستم ثانی کو میدان کارزار میں بڑی آسانی سے مارلیا۔ جواکیلا ہزار آدمیوں کے مقابلہ پربھاری سمجھا جاتا تھا۔
حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے اسامہ بن قتادہ کوفی کے حق میں بددعا کی جس نے آپ پرالزامات لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور وہ نتیجہ ہوا جس کا یہاں ذکر موجود ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی پرناحق کوئی الزام لگانابہت بڑا گناہ ہے۔ ایسی حالت میں مظلوم کی بددعا سے ڈرنا ایمان کی خاصیت ہے۔