‌صحيح البخاري - حدیث 7548

كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «المَاهِرُ بِالقُرْآنِ مَعَ الكِرَامِ البَرَرَةِ» صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَهُ إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ لِلصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7548

کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ قرآن کا ماہر ( جید حافظ ) ( قیامت کے دن ) لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو عزت والے اور اللہ کے تابعدار ہیں (اور یہ فرمانا) کہ قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم مجھ سے امام مالک نے بیان کا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے ان سے کہا میرا خیال ہے کہ تم بکریوں کو اور جنگل کو پسند کرتے ہو۔ پس جب تم اپنی بکریوں میں یا جنگل میں ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز کے ساتھ دو کیونکہ مؤذن کی آواز جہاں تک بھی پہنچے گی اور اسے جن و انس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
تشریح : اس باب کی پہلی حدیث میں قرآن کواچھی آواز سےزینت دینےکا ،دوسری حدیث میں اس کی تلاوت کا، تیسری حدیث میں قرأت کی عمدگی خوش آوازی کا، چوتھی حدیث میں قرأت بلند یاپست آواز سےکرنے کا،پانچویں حدیث میں اذان بلند آواز سےدینے کابیان ہے۔ان سب احادیث سےامام بخاری  نے یہ نکالا کہ قرأت اورچیز ہےقرآن اورچیز ہے۔قرأت ان صفات سے متصف ہوتی ہے اس سےمعلوم ہواکہ وہ قاری کی صفت اورمخلوق ہےبرخلاف قرآن کےکہ وہ اللہ کاکلام اورغیر مخلوق ہے۔ اس باب کی پہلی حدیث میں قرآن کواچھی آواز سےزینت دینےکا ،دوسری حدیث میں اس کی تلاوت کا، تیسری حدیث میں قرأت کی عمدگی خوش آوازی کا، چوتھی حدیث میں قرأت بلند یاپست آواز سےکرنے کا،پانچویں حدیث میں اذان بلند آواز سےدینے کابیان ہے۔ان سب احادیث سےامام بخاری  نے یہ نکالا کہ قرأت اورچیز ہےقرآن اورچیز ہے۔قرأت ان صفات سے متصف ہوتی ہے اس سےمعلوم ہواکہ وہ قاری کی صفت اورمخلوق ہےبرخلاف قرآن کےکہ وہ اللہ کاکلام اورغیر مخلوق ہے۔