‌صحيح البخاري - حدیث 754

كِتَابُ الأَذَانِ بَابٌ: هَلْ يَلْتَفِتُ لِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ، أَوْ يَرَى شَيْئًا، أَوْ بُصَاقًا فِي القِبْلَةِ؟ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: بَيْنَمَا المُسْلِمُونَ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ لَمْ يَفْجَأْهُمْ إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَشَفَ سِتْرَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ وَهُمْ صُفُوفٌ، فَتَبَسَّمَ يَضْحَكُ، وَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ لَهُ الصَّفَّ، فَظَنَّ أَنَّهُ يُرِيدُ الخُرُوجَ وَهَمَّ المُسْلِمُونَ أَنْ يَفْتَتِنُوا فِي صَلاَتِهِمْ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَتِمُّوا صَلاَتَكُمْ، فَأَرْخَى السِّتْرَ وَتُوُفِّيَ مِنْ آخِرِ ذَلِكَ اليَوْمِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 754

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: اگر نمازی پر کوئی حادثہ ہو؟ ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں ) مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ سے پردہ ہٹایا۔ آپ نے صحابہ کو دیکھا۔ سب لوگ صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ ( خوشی سے ) خوب کھل کر مسکرائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( آپ کو دیکھ کر ) پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ صف میں مل جائیں۔ آپ نے سمجھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ صحابہ ( آپ کو دیکھ کر خوشی سے اس قدر بےقرار ہوئے کہ گویا ) نماز ہی چھوڑ دیں گے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور پردہ ڈال لیا۔ اسی دن چاشت کو آپ نے وفات پائی۔
تشریح : ترجمہ باب یوں نکلا کہ صحابہ نے عین نماز میں التفات کیا۔ کیونکہ اگروہ التفات نہ کرتے تو آپ کا پردہ اٹھانا کیونکر دیکھتے اور ان کااشارہ کیسے سمجھتے۔ بلکہ خوشی کے مارے حال یہ ہوا کہ قریب تھا کہ وہ نماز کو بھول جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کے لیے دوڑیں۔ اسی حالت کو ان لفظوں سے تعبیر کیاگیا ہے کہ مسلمانوں نے یہ قصد کیا کہ وہ فتنے میں پڑجائیں۔ بہرحال یہ مخصوص حالات ہیں۔ ورنہ عام طور پر نماز میں التفات جائز نہیں جیسا کہ حدیث سابقہ میں گزرا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے وقوموا للہ قٰنتین ( البقرۃ: 238 ) یعنی نماز میں اللہ کے لیے دلی توجہ کے ساتھ فرماں بردار بندے بن کر کھڑے ہوا کرو۔ نماز کی روح یہی ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر یقین کرکے اس سے دل لگایاجائے۔ آیت شریفہ الذین ہم فی صلاتہم خاشعون ( المومنون: 2 ) کا یہی تقاضا ہے۔ ترجمہ باب یوں نکلا کہ صحابہ نے عین نماز میں التفات کیا۔ کیونکہ اگروہ التفات نہ کرتے تو آپ کا پردہ اٹھانا کیونکر دیکھتے اور ان کااشارہ کیسے سمجھتے۔ بلکہ خوشی کے مارے حال یہ ہوا کہ قریب تھا کہ وہ نماز کو بھول جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کے لیے دوڑیں۔ اسی حالت کو ان لفظوں سے تعبیر کیاگیا ہے کہ مسلمانوں نے یہ قصد کیا کہ وہ فتنے میں پڑجائیں۔ بہرحال یہ مخصوص حالات ہیں۔ ورنہ عام طور پر نماز میں التفات جائز نہیں جیسا کہ حدیث سابقہ میں گزرا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے وقوموا للہ قٰنتین ( البقرۃ: 238 ) یعنی نماز میں اللہ کے لیے دلی توجہ کے ساتھ فرماں بردار بندے بن کر کھڑے ہوا کرو۔ نماز کی روح یہی ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر یقین کرکے اس سے دل لگایاجائے۔ آیت شریفہ الذین ہم فی صلاتہم خاشعون ( المومنون: 2 ) کا یہی تقاضا ہے۔