‌صحيح البخاري - حدیث 7514

كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ القِيَامَةِ مَعَ الأَنْبِيَاءِ وَغَيْرِهِمْ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى قَالَ يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ فَيَقُولُ أَعَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا فَيَقُولُ نَعَمْ وَيَقُولُ عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا فَيَقُولُ نَعَمْ فَيُقَرِّرُهُ ثُمَّ يَقُولُ إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ وَقَالَ آدَمُ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7514

کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید باب: اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن انبیاء اور دوسرے لوگوں سے کلام کرنا برحق ہے ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے صفوان بن محرز نے بیان کیا کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: سرگوشی کے بارے میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کے قریب جائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا پردہ اس پر ڈال دے گا اور کہے گا تو نے یہ یہ عمل کیا تھا؟ بندہ کہے گا کہ ہاں۔ چنانچہ وہ اس کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہ پر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔ آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے صفوان نے بیان کیا، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
تشریح : اس سند کےلانے سےامام بخاری کی غرض یہ ہےکہ صفوان سےقتادہ کےسماع کی تصریح ہوجائے اور انقطاع دفع ہوجائے ۔حدیث کی اس باب سےمطابقت یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کابندے سےسرگوشی کرنامذکورہے۔حدیث اورباب کی مطابقت ظاہر ہے اس کے بعداب کہاں گئےوہ لوگ جوکہتےہیں اللہ کاکلام ایک قدیم نفسی صفت ہےنہ اس میں آوا ز ہےنہ حروف ہیں۔فرمائیے یہ قدیم صفت موقع بموفع کیونکر حادث ہوتی رہتی ہے۔اگر کہتے ہیں کہ اس کاتعلق حادث ہےجیسے سمع اوربصرہ وغیرہ ہیں تومسموع اورمبصرذات الہی کاغیر ہے۔ا سلیے تعلق حادث ہوسکتاہے یہاں توکلام اسی کی صفت ہے اس کا غیرنہیں ہے۔اگر اس کے کلام میں آواز اورحروف نہیں ہیں توپھر پیغمبروں نےاس کاکلام کیوں کرسنا اورمتواتراحادیث میں جو آیا ہےکہ اس نے دوسرے لوگو‎ں سے بھی کلا م کیااورخصوصا مومنوں سےآخرت میں کلام کرے گا تویہ کلام جب اس میں آواز اورحروف نہیں ہیں کیوکر سمجھ میں آیا اور آسکتا ہے۔افسوس ہے کہ یہ (متکلمین )لوگ اتنا علم پڑھ کر پھر اس مسئلہ میں بے وقوفی کی چال چلے اورمعلوم نہیں کیا کیا تاویلات کرتےہیں ۔اس قسم کی تاویلیں درحقیقت صفت کلام کاانکار کرناہےپھر سرے سےیوں نہیں کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی نہیں کرتا جیسے جعدبن درہم مردود تھا ۔آج کل بھی اکثر نیچری مغرب زدہ نام نہاد مسلمان ایسی ہی باتیں کرتےہیں۔ھدا ھم اللہ الیٰ صرا ط مستقیم۔ اس سند کےلانے سےامام بخاری کی غرض یہ ہےکہ صفوان سےقتادہ کےسماع کی تصریح ہوجائے اور انقطاع دفع ہوجائے ۔حدیث کی اس باب سےمطابقت یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کابندے سےسرگوشی کرنامذکورہے۔حدیث اورباب کی مطابقت ظاہر ہے اس کے بعداب کہاں گئےوہ لوگ جوکہتےہیں اللہ کاکلام ایک قدیم نفسی صفت ہےنہ اس میں آوا ز ہےنہ حروف ہیں۔فرمائیے یہ قدیم صفت موقع بموفع کیونکر حادث ہوتی رہتی ہے۔اگر کہتے ہیں کہ اس کاتعلق حادث ہےجیسے سمع اوربصرہ وغیرہ ہیں تومسموع اورمبصرذات الہی کاغیر ہے۔ا سلیے تعلق حادث ہوسکتاہے یہاں توکلام اسی کی صفت ہے اس کا غیرنہیں ہے۔اگر اس کے کلام میں آواز اورحروف نہیں ہیں توپھر پیغمبروں نےاس کاکلام کیوں کرسنا اورمتواتراحادیث میں جو آیا ہےکہ اس نے دوسرے لوگو‎ں سے بھی کلا م کیااورخصوصا مومنوں سےآخرت میں کلام کرے گا تویہ کلام جب اس میں آواز اورحروف نہیں ہیں کیوکر سمجھ میں آیا اور آسکتا ہے۔افسوس ہے کہ یہ (متکلمین )لوگ اتنا علم پڑھ کر پھر اس مسئلہ میں بے وقوفی کی چال چلے اورمعلوم نہیں کیا کیا تاویلات کرتےہیں ۔اس قسم کی تاویلیں درحقیقت صفت کلام کاانکار کرناہےپھر سرے سےیوں نہیں کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی نہیں کرتا جیسے جعدبن درہم مردود تھا ۔آج کل بھی اکثر نیچری مغرب زدہ نام نہاد مسلمان ایسی ہی باتیں کرتےہیں۔ھدا ھم اللہ الیٰ صرا ط مستقیم۔