‌صحيح البخاري - حدیث 7507

كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ} [الفتح: 15] صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ وَرُبَّمَا قَالَ أَصَبْتُ فَاغْفِرْ لِي فَقَالَ رَبُّهُ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ أَوْ أَصَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ أَصَابَ ذَنْبًا قَالَ قَالَ رَبِّ أَصَبْتُ أَوْ قَالَ أَذْنَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَلَاثًا فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7507

کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الفتح ) ارشاد یہ گنوار چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں ہم سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، انہوں نے ہم سے اسحاق بن عبداللہ نے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ سے سنا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بندے نے بہت گناہ کئے اور کہا: اے میرے رب! میں تیرا ہی گنہگار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں نے دوبارہ گناہ کر لیا، اسے بھی بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے بدلے میں سزا بھی دیتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ نے چاہا بندہ گناہ سے رکا رہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور اللہ کے حضور میں عرض کیا: اے میرے رب! میں نے گناہ پھر کر لیا ہے تو مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ورنہ اس کی وجہ سی سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ تین مرتبہ، پس اب جو چاہے عمل کرے۔
تشریح : حضرت امام بخاری کامقصد یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کاکلام کرنا حق ہے۔اس حدیث میں بھی اللہ کاکلام ایک گہنگار کےمتعلق مذکورہے اوریہ بتلانا بھی مقصد ہے کہ قرآن مجید اللہ کاکلام ہے مگر قرآن مجید کےعلاوہ بھی اللہ کلام کرتاہے۔رسول اللہ ﷺصادق المصدوق ہیں۔آپ نے یہ کلام نقل فرمایا ہےجولوگ اللہ کےکلام کاانکار کرتےہیں،ان کےنزدیک رسول اللہ ﷺ صادق المصدوق نہیں ہیں۔اس حدیث سے استغفار کی بھی بڑی فضیلت ثابت ہوئی بشرطیکہ گناہوں سےتائب ہوتاجائے اوراستغفار کرتارہے تو اس کو ضررنہ ہوگا ۔استغفار کی تین شرطیں ہیں۔ گناہ سے الگ ہوجانا، نادم ہونا ، آگے کےلیے یہ نیت کرناکہ اب نہ کروں گا۔اس نیت کےساتھ اگر پھر گناہ ہوجائے توپھراستغفار کرے۔دوسری حدیث میں ہےاگر ایک دن میں ستروہی گناہ کرے لیکن استغفار کرتارہے تواس نے اصرار نہیں کیا۔اصرارکےیہ معنی ہیں کہ گناہ پرنادم ہوا س کے پھر کرنے کی نیت رکھے۔صرف زبان سےاستغفار کرتارہے کہ ایسا استغفار خوداستغفار کےقابل ہے۔ اللهم انانستغفرك ونتوب اليك فاغفرلنا ياخيرالغافرين آمين- حضرت امام بخاری کامقصد یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کاکلام کرنا حق ہے۔اس حدیث میں بھی اللہ کاکلام ایک گہنگار کےمتعلق مذکورہے اوریہ بتلانا بھی مقصد ہے کہ قرآن مجید اللہ کاکلام ہے مگر قرآن مجید کےعلاوہ بھی اللہ کلام کرتاہے۔رسول اللہ ﷺصادق المصدوق ہیں۔آپ نے یہ کلام نقل فرمایا ہےجولوگ اللہ کےکلام کاانکار کرتےہیں،ان کےنزدیک رسول اللہ ﷺ صادق المصدوق نہیں ہیں۔اس حدیث سے استغفار کی بھی بڑی فضیلت ثابت ہوئی بشرطیکہ گناہوں سےتائب ہوتاجائے اوراستغفار کرتارہے تو اس کو ضررنہ ہوگا ۔استغفار کی تین شرطیں ہیں۔ گناہ سے الگ ہوجانا، نادم ہونا ، آگے کےلیے یہ نیت کرناکہ اب نہ کروں گا۔اس نیت کےساتھ اگر پھر گناہ ہوجائے توپھراستغفار کرے۔دوسری حدیث میں ہےاگر ایک دن میں ستروہی گناہ کرے لیکن استغفار کرتارہے تواس نے اصرار نہیں کیا۔اصرارکےیہ معنی ہیں کہ گناہ پرنادم ہوا س کے پھر کرنے کی نیت رکھے۔صرف زبان سےاستغفار کرتارہے کہ ایسا استغفار خوداستغفار کےقابل ہے۔ اللهم انانستغفرك ونتوب اليك فاغفرلنا ياخيرالغافرين آمين-