كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الحَقَّ وَهُوَ العَلِيُّ الكَبِيرُ} [سبأ: 23]، " وَلَمْ يَقُلْ: مَاذَا خَلَقَ رَبُّكُمْ " صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَبُّهُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی ، ( وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے ) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے یہاں فرشتے اللہ کے امر کے لیے لفظ «ماذا خلق ربکم» نہیں استعمال کرتے ہیں (پس اللہ کے کلام کو مخلوق کہنا غلط ہے جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں) اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا کہ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس قدر مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا پر غیرت آتی تھی اور کسی عورت پر نہیں آتی تھی اور ان کے رب نے حکم دیا تھا کہ انہیں جنت میں ایک گھر کی بشارت دے دیں۔
تشریح :
اس حدیث سےامام بخاری نےیہ ثابت کیاکہ اللہ کاکلام صرف نفسی اورقدیم نہیں ہےبلکہ وقتاً فوقتًا وہ کلام کرتا رہتا ہے۔چنانچہ خدیجہ ؓ کوبشارت دینے کےلیے اس نے کلام کیا۔
اس حدیث سےامام بخاری نےیہ ثابت کیاکہ اللہ کاکلام صرف نفسی اورقدیم نہیں ہےبلکہ وقتاً فوقتًا وہ کلام کرتا رہتا ہے۔چنانچہ خدیجہ ؓ کوبشارت دینے کےلیے اس نے کلام کیا۔