كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا المُرْسَلِينَ} [الصافات: 171] صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ أَنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَهُ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَهُ ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ فَيُؤْذَنُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيَكْتُبُ رِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَعَمَلَهُ وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ ثُمَّ يَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى لَا يَكُونُ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید
باب: اللہ کا فرمان ( سورۃ والصافات میں ) کہ ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا زید بن وہب سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا جو صادق و مصدق ہیں کہ انسان کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن اور راتوں تک جمع رہتا ہے پھر وہ خون کی پھٹکی بن جاتا ہے، پھر وہ گوشت کا لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کی روزی، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت لکھ لیتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے اور تم میں سے ایک شخص جنت والوں کے سے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فرق رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص دوزخ والوں کے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آتی ہے اور جنت والوں کے کام کرنے لگتا ہے، پھر جنت میں داخل ہوتا ہے۔
تشریح :
تواعتبار خاتمہ کاہے۔اس حدیث سےحضرت امام بخاری نےیہ ثابت کی کہ اللہ کاکلام حادث ہوتاہے کیونکہ جب نطفہ پرچارمہینے گزرلیتے ہیں ،اس وقت فرشتہ بھیجا جاتاہےاور اللہ تعالی صرف چار چیزوں کےلکھنے کا اس کوحکم دیتاہے۔
تواعتبار خاتمہ کاہے۔اس حدیث سےحضرت امام بخاری نےیہ ثابت کی کہ اللہ کاکلام حادث ہوتاہے کیونکہ جب نطفہ پرچارمہینے گزرلیتے ہیں ،اس وقت فرشتہ بھیجا جاتاہےاور اللہ تعالی صرف چار چیزوں کےلکھنے کا اس کوحکم دیتاہے۔