كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ مَا جَاءَ فِي تَخْلِيقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَغَيْرِهَا مِنَ الخَلاَئِقِ « صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بِتُّ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ لَيْلَةً وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا لِأَنْظُرَ كَيْفَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فَتَحَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَهْلِهِ سَاعَةً ثُمَّ رَقَدَ فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ أَوْ بَعْضُهُ قَعَدَ فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ فَقَرَأَ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَنَّ ثُمَّ صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى لِلنَّاسِ الصُّبْحَ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید
باب: آسمانوں اور زمین اور دوسری مخلوق کے پیدا کرنے کا بیان
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے خبر دی، انہیں کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک رات میں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گزاری اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کے پاس تھے۔ میرا مقصد رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھنا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر تو اپنی اہلیہ کے ساتھ بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ یا بعض حصہ باقی رہ گیا تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی «إن فی خلق السموات والأرض» بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں پھر اٹھ کر آپ نے وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان دی اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر باہر آ گئے اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔
تشریح :
آیت ان فی خلق السموات والارض الخ، میں اللہ تعالیٰ نےآسمان وزمین کی پیدائش اوراس میں غورکرنے کاذکر فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ میں اختلاف ہے۔حضرت امام ابوحنیفہ نےان کوبھی قدیم کہاہےاور اشعری اورمحقیقین اہل حدیث کہتے ہیں کہ صفات فعلیہ جیسے کلام ،نزول ،استواء تکوین وغیرہ یہ سب حادث ہیں اور ان کے حدوث سےپروردگار کاحدوث لازم نہیں آتا اوریہ قاعدہ فلاسفہ کاباندھا ہواکہ حوادث کامحل بھی حادث ہوتاہےمحض غلط اورلغو ہے۔اللہ تعالیٰ نےبےشمار کام کرتاہے۔ فرمایا کل یوم ھو فی شان پھر کیا اللہ حادث ہےہرگز نہیں وہ قدیم ہےاب جن لوگوں نےصفات کوبھی قدیم کہاہےان کا مطلب یہ ہےکہ اصل صفت قدیم ہےمگر اس کاتعلق حادث ہے۔مثلا خلق کی صفت قدیم ہےلیکن زید سےاس کاتعلق حادث ہےاسی ح صفت استواء قدیم ہےمگر عرش سےاس کاتعلق حادث ہے۔ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ ام الفضل حضرت عباس ؓ کی بیوی کی بہن ہیں جو بیوہ ہوگئی تھیں بعد میں خودحضرت عباس کی درخواست پران کاحرم نبوی میں داخلہ ہوا۔نکاح خود حضرت عباس ؓ نے پانچ سودرہم مہر پرکیا۔یہ حضور ﷺ کاآخری نکاح تھا جوماہ ذی القعدہ سنہ 7ھ میں بمقام سرف ہوا۔بہت ہی نیک خدا ترس خاتون تھیں۔سنہ 51ھ میں بمقام سرف ہی انتقال فرمایا اوراسی جگہ دفن ہوئیں ۔عائشہ ؓ کابیان ہےکہ میمونہ ؓ صالحہ اورنیک نام اورہم سب سے زیادہ تقویٰ والی تھیں۔وہ اپنے قرابت داروں سےبہت سلوک کرتی تھیں۔رضی اللہ عنہا وارضاھا(آمین)
آیت ان فی خلق السموات والارض الخ، میں اللہ تعالیٰ نےآسمان وزمین کی پیدائش اوراس میں غورکرنے کاذکر فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ میں اختلاف ہے۔حضرت امام ابوحنیفہ نےان کوبھی قدیم کہاہےاور اشعری اورمحقیقین اہل حدیث کہتے ہیں کہ صفات فعلیہ جیسے کلام ،نزول ،استواء تکوین وغیرہ یہ سب حادث ہیں اور ان کے حدوث سےپروردگار کاحدوث لازم نہیں آتا اوریہ قاعدہ فلاسفہ کاباندھا ہواکہ حوادث کامحل بھی حادث ہوتاہےمحض غلط اورلغو ہے۔اللہ تعالیٰ نےبےشمار کام کرتاہے۔ فرمایا کل یوم ھو فی شان پھر کیا اللہ حادث ہےہرگز نہیں وہ قدیم ہےاب جن لوگوں نےصفات کوبھی قدیم کہاہےان کا مطلب یہ ہےکہ اصل صفت قدیم ہےمگر اس کاتعلق حادث ہے۔مثلا خلق کی صفت قدیم ہےلیکن زید سےاس کاتعلق حادث ہےاسی ح صفت استواء قدیم ہےمگر عرش سےاس کاتعلق حادث ہے۔ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ ام الفضل حضرت عباس ؓ کی بیوی کی بہن ہیں جو بیوہ ہوگئی تھیں بعد میں خودحضرت عباس کی درخواست پران کاحرم نبوی میں داخلہ ہوا۔نکاح خود حضرت عباس ؓ نے پانچ سودرہم مہر پرکیا۔یہ حضور ﷺ کاآخری نکاح تھا جوماہ ذی القعدہ سنہ 7ھ میں بمقام سرف ہوا۔بہت ہی نیک خدا ترس خاتون تھیں۔سنہ 51ھ میں بمقام سرف ہی انتقال فرمایا اوراسی جگہ دفن ہوئیں ۔عائشہ ؓ کابیان ہےکہ میمونہ ؓ صالحہ اورنیک نام اورہم سب سے زیادہ تقویٰ والی تھیں۔وہ اپنے قرابت داروں سےبہت سلوک کرتی تھیں۔رضی اللہ عنہا وارضاھا(آمین)