كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} [القيامة: 23] صحيح وَقَالَ حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُحْبَسُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُهِمُّوا بِذَلِكَ فَيَقُولُونَ لَوْ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا فَيُرِيحُنَا مِنْ مَكَانِنَا فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ آدَمُ أَبُو النَّاسِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَأَسْكَنَكَ جَنَّتَهُ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ لِتَشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا قَالَ فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ قَالَ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ أَكْلَهُ مِنْ الشَّجَرَةِ وَقَدْ نُهِيَ عَنْهَا وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ سُؤَالَهُ رَبَّهُ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَكِنْ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ الرَّحْمَنِ قَالَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ ثَلَاثَ كَلِمَاتٍ كَذَبَهُنَّ وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا آتَاهُ اللَّهُ التَّوْرَاةَ وَكَلَّمَهُ وَقَرَّبَهُ نَجِيًّا قَالَ فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُ إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ قَتْلَهُ النَّفْسَ وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ وَرُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ قَالَ فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ فَيَأْتُونِي فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فِي دَارِهِ فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي فَيَقُولُ ارْفَعْ مُحَمَّدُ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَ قَالَ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأُثْنِي عَلَى رَبِّي بِثَنَاءٍ وَتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأَخْرُجُ فَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ قَالَ قَتَادَةُ وَسَمِعْتُهُ أَيْضًا يَقُولُ فَأَخْرُجُ فَأُخْرِجُهُمْ مِنْ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ ثُمَّ أَعُودُ الثَّانِيَةَ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فِي دَارِهِ فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ثُمَّ يَقُولُ ارْفَعْ مُحَمَّدُ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَ قَالَ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأُثْنِي عَلَى رَبِّي بِثَنَاءٍ وَتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ قَالَ ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأَخْرُجُ فَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ قَالَ قَتَادَةُ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَأَخْرُجُ فَأُخْرِجُهُمْ مِنْ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ ثُمَّ أَعُودُ الثَّالِثَةَ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فِي دَارِهِ فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ثُمَّ يَقُولُ ارْفَعْ مُحَمَّدُ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَهْ قَالَ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأُثْنِي عَلَى رَبِّي بِثَنَاءٍ وَتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ قَالَ ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأَخْرُجُ فَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ قَالَ قَتَادَةُ وَقَدْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ فَأَخْرُجُ فَأُخْرِجُهُمْ مِنْ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ حَتَّى مَا يَبْقَى فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ قَالَ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا قَالَ وَهَذَا الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي وُعِدَهُ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ قیامت میں ) ارشاد اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ، یا دیکھ رہے ہوں گے
اور حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے حمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ بن دعامہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن مومنوں کو (گرم میدان میں) روک دیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ غمگین ہو جائیں گے اور (صلاح کر کے) کہیں گے کہ کاش کوئی ہمارے رب سے ہماری شفاعت کرتا کہ ہمیں اس حالت سے نجات ملتی۔ چنانچہ وہ مل کر آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کو جنت میں مقام عطا کیا، آپ کو سجدہ کرنے کا فرشتوں کو حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں تاکہ ہمیں اس حالت سے نجات دے۔ بیان کیا کہ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں وہ اپنی اس غلطی کو یاد کریں گے جو باوجود رکنے کے درخت کھا لینے کی وجہ سے ان سے ہوئی تھی اور کہیں گے کہ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا۔ چنانچہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہ فرمائیں گے کہ میں اس لائق نہیں اور اپنی اس غلطی کو یاد کریں گے جو بغیر علم کے اللہ رب العزت سے سوال کر کے (اپنے بیٹے کی بخشش کے لیے) انہوں نے کی تھی اور کہیں گے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے خلیل ہیں۔ بیان کیا کہ ہم سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہی عذر کریں گے کہ میں اس لائق نہیں اور وہ ان تین باتوں کو یاد کریں گے جن میں آپ نے بظاہر غلط بیانی کی تھی اور کہیں گے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے بندے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توریت دی اور ان سے بات کی اور ان کو نزدیک کر کے ان سے سرگوشی کی۔ بیان کیا کہ پھر لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں اور وہ غلطی یاد کریں گے جو ایک شخص کو قتل کر کے انہوں نے کی تھی۔ (وہ کہیں گے)البتہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے، اس کے رسول، اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ وہ فرمائیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے بندے ہیں کہ اللہ نے ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں اپنے رب سے اس کے در دولت یعنی عرش معلی پر آنے کے لیے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اس کی اجازت دی جائے گی پھر میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے جب تک چاہے گا اسی حالت میں رہنے دے گا۔ پھر فرمائے گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، جو مانگو گے دیا جائے گا۔ بیان کیا کہ پھر میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی حمد و ثنا کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ بیان کیا کہ پھر میں شفاعت کروں گا۔ چنانچہ میرے لیے حد مقرر کی جائے گی اور میں اس کے مطابق لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پھر میں نکالوں گا اور جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری مرتبہ اپنے رب سے اس کے در دولت کے لیے اجازت چاہوں گا اور مجھے اس کی اجازت دی جائے گی۔ پھر میں اللہ رب العزت کو دیکھتے ہی اس کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے یوں ہی چھوڑے رکھے گا۔ پھر فرمائے گا: اے محمد! سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا شفاعت کرو قبول کی جائے گی، مانگو دیا جائے گا۔ آپ نے بیان کیا کہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی ایسی حمد و ثنا کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا بیان کیا کہ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گا اور میں اس کے مطابق جہنم سے لوگوں کو نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ پھر میں لوگوں کو نکالوں گا اور انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو گا یعنی انہیں ہمیشہ ہی اس میں رہنا ہو گا (یعنی کفار و مشرکین) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی «عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا» قریب ہے کہ آپ کا رب مقام محمود پر آپ کو بھیجے گا فرمایا کہ یہی وہ مقام محمود ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے۔
تشریح :
مقام محمود رفیع الشان درجہ ہےجو خاص ہمارے رسول کریم ﷺ کوعنائت ہوگا۔ایک روایت میں ہےکہ اس مقام پر اگلے اورپچھلے سب رشک کریں گے۔روایت میں اوپر اللہ کےگھر کاذکر آیا ہے۔گھر سےمراد جنت ہےاضافت تشریف کےلیے ہےجیسے بیت اللہ۔مصابیح والے نےکہا ترجمہ یوں ہےمیں اپنے مالک سےاجازت چاہوں گاجب میں اس کےگھر یعنی جنت میں ہوں ۔یہاں گھر سےمراد خاص وہ مقام ہےاللہ تعالیٰ اس وقت تجلی فرماہوگاوہ عرش معلیٰ ہےاور عرش کو صحابہ نےخدا کاگھر کہا ہے۔ایک صحابی کاقول ہے وکان مکان اللہ اعلیٰ وارفع (وحیدی)
حدیث میں اللہ کےلیے پنڈلی کاذکر ہےاس طرح وہ مذکورہ ہےبلا تاویل ایمان لانا فرض ہے۔اس کی حقیقت اللہ کےحوالہ کرنا طریقہ سلف ہے۔اسی طرح اہل نار کومٹھی بھر کرنکالنے اور جنت میں داخل کرنے کاذکرہے جوبرحق ہےجیسا اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے ویسی اس کی مٹھی ہےجس کی تفصیل معلوم کرناہماری عقلوں سےبعید ہے۔اللہ کی مٹھی کاکیا ٹھکانا ہے۔بڑے ہی خوش نصیب ہوں گے وہ دوزخی جواللہ کی مٹھی میں آکر دوزخ سےنجات پاکر داخل جنت ہوں گے۔
حافظ صاحب نقل فرماتے ہیں لا تضامون فى رويته بالضم والتشديد معناه تجتمعون لر ؤيته فى جهة ولا يضم بعضكم الى بعض ومعناه بفتح التاء كذالك والاصل لاتضامون فى رويته باجتماع فى جهة فانكم ترونه فى جهالكم كلها- (خلاصہ فتخ الباری ) یعنی لفظ تضامون تا کےپیش اورمیم کےتشدید کےساتھ اس کےمعنی یہ کہ اس اللہ کےدیدار کرنے میں تمہاری بھیڑ نہیں ہوگی ۔تم اسے ہر طرف سےدیکھ سکوگے اوربعض بعض سےنہیں ٹکرائے اورتا کے فتحہ کےساتھ بھی معنی یہی ہے۔اصل میں یہ لاتضامون دو تاکے ساتھ ہےایک تا کوتخفیف کےلیے حذف کردیا گیامطلب یہی کہ تم اس کا ہرطرف سےدیدار کرسکو گے بھیڑ بھاڑ نہیں ہوگی جیسا کہ چاند کےدیکھے کامنظر ہوتاہے ۔لفظ طاغوت سےشیاطین اوراصنام اورگمراہی وضلالت کےسردار مراد ہیں ۔اثرالسجود سے مراد چہرہ یاسارے اعضائے سجود مراد ہیں قال عیاض یدل علی ان المراد بالرالسجود الوجۃ خاصۃ اثر سجدہ سےخاص چہرہ مراد ہے۔آخر حدیث میں ایک آخری خوش نصیب انسان کاذکر ہےجوسب سےپیچھے جنت میں داخل ہوکر سرور حاصل کرےگا ۔دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ جملہ قارئین بخاری شریف مردوں عورتوں کی جنت کاداخلہ عطا کرے اورسب کودوزخ سےبچائے آمین۔اللهم انا نسالك الجتة ونعوزبك من النار فتقبل دعاءنا يا رب العالمين آمين!
مقام محمود رفیع الشان درجہ ہےجو خاص ہمارے رسول کریم ﷺ کوعنائت ہوگا۔ایک روایت میں ہےکہ اس مقام پر اگلے اورپچھلے سب رشک کریں گے۔روایت میں اوپر اللہ کےگھر کاذکر آیا ہے۔گھر سےمراد جنت ہےاضافت تشریف کےلیے ہےجیسے بیت اللہ۔مصابیح والے نےکہا ترجمہ یوں ہےمیں اپنے مالک سےاجازت چاہوں گاجب میں اس کےگھر یعنی جنت میں ہوں ۔یہاں گھر سےمراد خاص وہ مقام ہےاللہ تعالیٰ اس وقت تجلی فرماہوگاوہ عرش معلیٰ ہےاور عرش کو صحابہ نےخدا کاگھر کہا ہے۔ایک صحابی کاقول ہے وکان مکان اللہ اعلیٰ وارفع (وحیدی)
حدیث میں اللہ کےلیے پنڈلی کاذکر ہےاس طرح وہ مذکورہ ہےبلا تاویل ایمان لانا فرض ہے۔اس کی حقیقت اللہ کےحوالہ کرنا طریقہ سلف ہے۔اسی طرح اہل نار کومٹھی بھر کرنکالنے اور جنت میں داخل کرنے کاذکرہے جوبرحق ہےجیسا اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے ویسی اس کی مٹھی ہےجس کی تفصیل معلوم کرناہماری عقلوں سےبعید ہے۔اللہ کی مٹھی کاکیا ٹھکانا ہے۔بڑے ہی خوش نصیب ہوں گے وہ دوزخی جواللہ کی مٹھی میں آکر دوزخ سےنجات پاکر داخل جنت ہوں گے۔
حافظ صاحب نقل فرماتے ہیں لا تضامون فى رويته بالضم والتشديد معناه تجتمعون لر ؤيته فى جهة ولا يضم بعضكم الى بعض ومعناه بفتح التاء كذالك والاصل لاتضامون فى رويته باجتماع فى جهة فانكم ترونه فى جهالكم كلها- (خلاصہ فتخ الباری ) یعنی لفظ تضامون تا کےپیش اورمیم کےتشدید کےساتھ اس کےمعنی یہ کہ اس اللہ کےدیدار کرنے میں تمہاری بھیڑ نہیں ہوگی ۔تم اسے ہر طرف سےدیکھ سکوگے اوربعض بعض سےنہیں ٹکرائے اورتا کے فتحہ کےساتھ بھی معنی یہی ہے۔اصل میں یہ لاتضامون دو تاکے ساتھ ہےایک تا کوتخفیف کےلیے حذف کردیا گیامطلب یہی کہ تم اس کا ہرطرف سےدیدار کرسکو گے بھیڑ بھاڑ نہیں ہوگی جیسا کہ چاند کےدیکھے کامنظر ہوتاہے ۔لفظ طاغوت سےشیاطین اوراصنام اورگمراہی وضلالت کےسردار مراد ہیں ۔اثرالسجود سے مراد چہرہ یاسارے اعضائے سجود مراد ہیں قال عیاض یدل علی ان المراد بالرالسجود الوجۃ خاصۃ اثر سجدہ سےخاص چہرہ مراد ہے۔آخر حدیث میں ایک آخری خوش نصیب انسان کاذکر ہےجوسب سےپیچھے جنت میں داخل ہوکر سرور حاصل کرےگا ۔دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ جملہ قارئین بخاری شریف مردوں عورتوں کی جنت کاداخلہ عطا کرے اورسب کودوزخ سےبچائے آمین۔اللهم انا نسالك الجتة ونعوزبك من النار فتقبل دعاءنا يا رب العالمين آمين!