كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ} [هود: 7]، {وَهُوَ رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ} [التوبة: 129] صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فَلَمَّا غَرَبَتْ الشَّمْسُ قَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ هَلْ تَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ هَذِهِ قَالَ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهَا تَذْهَبُ تَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُودِ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيلَ لَهَا ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا ثُمَّ قَرَأَ ذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید
باب: ( سورۃ ہود میں اللہ کا فرمان ) اور اس کا عرش پانی پر تھا ، اور وہ عرش عظیم کا رب ہے،، ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوی إلی السماء» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواہن» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوی» بمعنی «علی العرش.» ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ «مجید» بمعنی «کریم» ۔ «الودود» بمعنی«الحبیب.» بولتے ہیں۔ «حمید» ، «مجید» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود» ، «حمید.» سے مشتق ہے۔
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے اور ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، پھر جب سورج غروب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! کیا تمہیں معلوم ہے یہ کہاں جاتا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور سجدہ کی اجازت چاہتا ہے پھر اسے اجازت دی جاتی ہے اور گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ واپس وہاں جاؤ جہاں سے آئے ہو۔ چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوتا ہے، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «ذلک مستقر لہا» عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرآت یوں ہی ہے۔
تشریح :
یہ حدیث اوپرگزر چکی ہے ۔اس حدیث سےیہ نکلتاہےکہ سورج حرکت کرتاہے اورزمین ساکن ہے جیسے اگلے فلاسفہ کاقول تھااورممکن ہےکہ حرکت سےیہ مراد ہے کہ ظاہر میں جو سورج حرکت کرتاہوا معلوم ہوتا ہے مگر اس صورت میں لوٹ جانے کالفظ ذرہ غیر چسپاں ہوگا۔دوسرا شبہ اس حدیث میں یہ ہےکہ طلوع اورغروب سورج کاباعتبار اختلاف اقالیم اور بلدان توہرآن میں ہو رہاہے پھر لازم ہےکہ سورج ہرآن میں سجدہ کررہا ہو اوراجازت طلب کررہاہو۔اس کا جواب یہ ہےکہ بیشک ہرآن میں وہ ایک ملک میں طلوع دوسرے میں غروب ہورہاہےاورہرآن میں اللہ تعالی کاسجدہ گزار اورطالب حکم ہے۔اس میں کوئی استبعاد نہیں۔سجدے سےسجدہ تھوڑے مراد ہےجیسے آدمی سجدہ کرتا ہےبلکہ سجدہ قہری اورحالی یعنی اطاعت اوامر خداوندی ۔دوسری روایت میں ہےکہ وہ عرش کےتلے سجدہ کرتاہے۔یہ بھی بالکل صحیح ہے۔معلوم ہوا پروردگار کاعرش بھی کروی ہے اورسورج ہرطرف سےاسکے تلے واقع ہےکیونکہ عرش تمام عالم کےوسط اور تمام عالم کےوسط اورتمام عالم کومحیط ہے۔اب یہ اشکال رہےگا ۔فانھا تعلب لی تسجد تحت العرش میں حتی کےکیامعنی رہیں گے۔اس کاجواب یہ ہےکہ حتی یہاں تعلیل کےلیے ہےیعنی وہ اس لیے چل رہا ہےکہ وہ ہمیشہ عرش کےتلے سربسجود اورمطیع اوامرخداوندی رہے۔
نوٹ: سائنسدانوں اور جغرافیہ دانوں کے مفروضے آئے روزبدلتے رہتے ہیں ہمیں اسی چیز پرایمان رکھناجاہیے کہ سورج حرکت کرتاہے اورسجدہ بھی ،کیفیت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے(محمود الحسن اسد)
یہ حدیث اوپرگزر چکی ہے ۔اس حدیث سےیہ نکلتاہےکہ سورج حرکت کرتاہے اورزمین ساکن ہے جیسے اگلے فلاسفہ کاقول تھااورممکن ہےکہ حرکت سےیہ مراد ہے کہ ظاہر میں جو سورج حرکت کرتاہوا معلوم ہوتا ہے مگر اس صورت میں لوٹ جانے کالفظ ذرہ غیر چسپاں ہوگا۔دوسرا شبہ اس حدیث میں یہ ہےکہ طلوع اورغروب سورج کاباعتبار اختلاف اقالیم اور بلدان توہرآن میں ہو رہاہے پھر لازم ہےکہ سورج ہرآن میں سجدہ کررہا ہو اوراجازت طلب کررہاہو۔اس کا جواب یہ ہےکہ بیشک ہرآن میں وہ ایک ملک میں طلوع دوسرے میں غروب ہورہاہےاورہرآن میں اللہ تعالی کاسجدہ گزار اورطالب حکم ہے۔اس میں کوئی استبعاد نہیں۔سجدے سےسجدہ تھوڑے مراد ہےجیسے آدمی سجدہ کرتا ہےبلکہ سجدہ قہری اورحالی یعنی اطاعت اوامر خداوندی ۔دوسری روایت میں ہےکہ وہ عرش کےتلے سجدہ کرتاہے۔یہ بھی بالکل صحیح ہے۔معلوم ہوا پروردگار کاعرش بھی کروی ہے اورسورج ہرطرف سےاسکے تلے واقع ہےکیونکہ عرش تمام عالم کےوسط اور تمام عالم کےوسط اورتمام عالم کومحیط ہے۔اب یہ اشکال رہےگا ۔فانھا تعلب لی تسجد تحت العرش میں حتی کےکیامعنی رہیں گے۔اس کاجواب یہ ہےکہ حتی یہاں تعلیل کےلیے ہےیعنی وہ اس لیے چل رہا ہےکہ وہ ہمیشہ عرش کےتلے سربسجود اورمطیع اوامرخداوندی رہے۔
نوٹ: سائنسدانوں اور جغرافیہ دانوں کے مفروضے آئے روزبدلتے رہتے ہیں ہمیں اسی چیز پرایمان رکھناجاہیے کہ سورج حرکت کرتاہے اورسجدہ بھی ،کیفیت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے(محمود الحسن اسد)