كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم بَابُ {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ} [هود: 7]، {وَهُوَ رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ} [التوبة: 129] صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَمَّا قَضَى الْخَلْقَ كَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جہمیہ وغیرہ کی تردید باب: ( سورۃ ہود میں اللہ کا فرمان ) اور اس کا عرش پانی پر تھا ، اور وہ عرش عظیم کا رب ہے،، ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوی إلی السماء» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواہن» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوی» بمعنی «علی العرش.» ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ «مجید» بمعنی «کریم» ۔ «الودود» بمعنی«الحبیب.» بولتے ہیں۔ «حمید» ، «مجید» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود» ، «حمید.» سے مشتق ہے۔ ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا کی تو عرش کے اوپر اپنے پاس لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غصہ سے بڑھ کر ہے۔