كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرُهَا صحيح حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَعَمِّي، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ، فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ لَمْ أَجِدْكَ؟ قَالَ: «إِنْ لَمْ تَجِدِينِي، فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ» زَادَ لَنَا الحُمَيْدِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ كَأَنَّهَا تَعْنِي المَوْتَ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہوگی؟
مجھ سے عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے میرے والد اور چچا نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے ‘ انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک خاتون رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حکم دیا ۔ انہوں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو پھر کیا کروں گی َ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے نہ پا نا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس جانا ۔ حمیدی نے ابراہیم بن سعد سے یہ اضافہ کیا کہ غالباً خاتون کی مراد وفات تھی ۔ امام بخاری نے کہا کہ حمیدی نے اس روایت میں ابراہیم بن سعد سے اتنا بڑھا یا ہے کہ آپ کو نہ پاؤں ‘ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی وفات ہو جائے ۔
تشریح :
اس حدیث کو امام بخاری دلالت کی مثال کے طور پر لائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے یہ کہنے سے کہ میں آپ کو نہ پاؤں یہ سمجھ لیا کہ مراد اس کی موت ہے ۔ بعضوں نے کہا اس میں دلالت ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں کیا تواس کا مطلب یہ ہے کہ صراحت کے ساتھ ‘ باقی اشارے کے طور پر تو کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کرنا چاہیے تھے۔ مثلاً یہ حدیث اور مرض موت میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کی حدیث اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث کہ اپنے بھائی اور باپ کو بلا بھیج‘میں لکھ دوں ‘ ایسا نہ ہو کوئی آرزو کرنے والا کچھ اور آرزو کرے اور وہ حدیث کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا ہم آپ کے بعد کس کو خلیفہ کریں فرمایا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں عمر رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں ‘ علی رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں مگر مجھ کو امید نہیں کہ تم علی رضی اللہ عنہ کو کرو گے ۔ اس حدیث میں بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پہلے بیان کیا اور شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفا میں اس بحث کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے ۔
اس حدیث کو امام بخاری دلالت کی مثال کے طور پر لائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے یہ کہنے سے کہ میں آپ کو نہ پاؤں یہ سمجھ لیا کہ مراد اس کی موت ہے ۔ بعضوں نے کہا اس میں دلالت ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں کیا تواس کا مطلب یہ ہے کہ صراحت کے ساتھ ‘ باقی اشارے کے طور پر تو کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کرنا چاہیے تھے۔ مثلاً یہ حدیث اور مرض موت میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کی حدیث اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث کہ اپنے بھائی اور باپ کو بلا بھیج‘میں لکھ دوں ‘ ایسا نہ ہو کوئی آرزو کرنے والا کچھ اور آرزو کرے اور وہ حدیث کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا ہم آپ کے بعد کس کو خلیفہ کریں فرمایا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں عمر رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں ‘ علی رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں مگر مجھ کو امید نہیں کہ تم علی رضی اللہ عنہ کو کرو گے ۔ اس حدیث میں بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پہلے بیان کیا اور شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفا میں اس بحث کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے ۔