‌صحيح البخاري - حدیث 7358

كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرُهَا صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ أُمَّ حُفَيْدٍ بِنْتَ الحَارِثِ بْنِ حَزْنٍ «أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا وَأَقِطًا وَأَضُبًّا، فَدَعَا بِهِنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ، فَتَرَكَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَالْمُتَقَذِّرِ لَهُنَّ»، وَلَوْ كُنَّ حَرَامًا مَا أُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ، وَلاَ أَمَرَ بِأَكْلِهِنَّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7358

کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا باب : دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہوگی؟ ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابو بشر نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ ام حفید بنت حارث بن حزن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھی اور پنیر اور بھنا ہوا سانڈا ہدیہ میں بھیجاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں قبول فرمالیں اور آپ کے دستر خوان پر انہیں کھا یا گیا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( سانڈے کو ) ہاتھ نہیں لگا یا ‘ جیسے آپ کو پسند نہ ہو اور اگر ہو حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر نہ کھا یا جاتا اور نہ آپ کھانے کے لیے کہتے ۔ ( راجع : ۵۷۵۲ )
تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنہ کو کھانا طبعاً پسند نہیں فرما یا مگر آپ کے دستر خوان پر صحابہ نے اسے کھا یا ۔ آپ نے ان کو منع نہیں فرمایا۔ ساہنہ تو حرام ہو ہی نہیں سکتا وہ تو عربوں کی اصلی غذا ہے ۔ خصوصاً ان عربوں کی جو صحرا نشین ہیں ۔ چنانچہ فردوسی کہتا ہے زشیر شتر خوردن وسوسمار عرب را بجائے رسید است کار اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے دلالت شرعیہ کی مثال دی کہ جب ساہنہ آنحضرت کے دستر خوان پر دوسرے لوگوں نے کھائے تو معلوم ہوا کہ وہ حلال ہیں اگر حرام ہو تے تو آپ اپنے دستر خوان پر رکھنے بھی نہ دیتے چہ جائیکہ کھا نا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنہ کو کھانا طبعاً پسند نہیں فرما یا مگر آپ کے دستر خوان پر صحابہ نے اسے کھا یا ۔ آپ نے ان کو منع نہیں فرمایا۔ ساہنہ تو حرام ہو ہی نہیں سکتا وہ تو عربوں کی اصلی غذا ہے ۔ خصوصاً ان عربوں کی جو صحرا نشین ہیں ۔ چنانچہ فردوسی کہتا ہے زشیر شتر خوردن وسوسمار عرب را بجائے رسید است کار اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے دلالت شرعیہ کی مثال دی کہ جب ساہنہ آنحضرت کے دستر خوان پر دوسرے لوگوں نے کھائے تو معلوم ہوا کہ وہ حلال ہیں اگر حرام ہو تے تو آپ اپنے دستر خوان پر رکھنے بھی نہ دیتے چہ جائیکہ کھا نا ۔