‌صحيح البخاري - حدیث 7355

كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَنْ رَأَى تَرْكَ النَّكِيرِ مِنَ النَّبِيِّ ﷺحُجَّةً، لاَ مِنْ غَيْرِ الرَّسُولِ صحيح حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ الصَّائِدِ الدَّجَّالُ قُلْتُ تَحْلِفُ بِاللَّهِ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنْكِرْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7355

کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا باب : آنحضرت ﷺ سے ایک بات کہی جائے اور آپ اس پر انکار نہ کریں جسے تقریر کہتے ہیں تو یہ حجت ہے ۔ آنحضرت ﷺ کے سوا اور کسی کی تقریر پر حجت نہیں ۔ ہم سے حماد بن حمید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبید اللہ بن معاذ نے ‘ کہا ہم سے ہمارے والد حضرت معاذ بن حسان نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ ان سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ ان سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ابن الصیاد کے واقعہ پر اللہ کی قسم کھا تے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اللہ کی قسم کھا تے ہیں َ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا تے دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی انکار نہیں فرمایا ۔
تشریح : اگر ابن صیاد دجال نہ وہوتا تو آپ ضرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر قسم کھانے سے منع فرماتے ۔ یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ اوپر کتاب الجنائز میں گزر چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی گردن مارنا چاہی تو آپ نے فرما یا اگر وہ دجال ہے تب تو تو اس کی گردن نہ مار سکے گا اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مارنا تیرے حق میں بہتر نہ ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے دجال ہونے میں شبہ تھا ‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قسم کھانے پر آپ نے انکار کیوں نہیں کیا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شاید پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے دجال ہونے میں شبہ ہو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ قسم کھائی اس وقت معلوم ہو گیا کہ وہی دجال ہے ۔ ابو داؤد نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا وہ قسم کھا تے تھے اور کہتے تھے بیشک ابن صیاد ہی مسیح دجال ہے اور ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اس لیے انکار ہو کہ ابن صیاد بھی ان تیس دجالوں میں کا ایک دجال ہو جس کے نکلنے کا ذکر دوسری حدیث میں ہے اس معنی کو اس کا دجال ہونا یقینی ہوا اور مسلم نے تمیم داری رضی اللہ عنہ کا قصہ نکالا کہ انہوں نے دجال کو ایک جزیرے میں دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قصہ نقل کے اور مسلم نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ ابن صیاد کا اور میرا مکہ تک ساتھ ہوا‘ وہ کہنے لگا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے مجھ کودجال سمجھتے ہیں ۔ کیا تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ دجال مکہ اور مدینہ میں نہیں جائے گا ۔ میں نے کہا بے شک سنا ہے ۔ کیا تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ اس کی اولاد نہ ہوگی ؟ میں نے کہا بیشک سنا ہے ۔ ابن صیاد نے کہا میری تو اولاد بھی ہوئی ہے اور میں مدینہ میں پیدا ہوا ‘ اب مکہ میں جا رہا ہوں ۔ اور ابو داؤد نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ابن صیاد واقعہ حرہ میں گم ہو گیا ۔ بعضوں نے کہا وہ مدینہ میں مرا اور لوگوں نے اس پر نماز پڑھی ۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن صیاد نے کہا البتہ یہ تو ہے کہ میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدا ہونے کی جگہ جانتا ہوں ‘ یہ بھی جانتا ہوں اب وہ جہاں ہے ۔ یہ سنتے ہی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ ارے کمبخت ! تیری تباہی ہو سارے دن یعنی تو نے پھر شبہ ڈال دیا ۔ ایک روایت میں عبد الرزاق کے بہ سند صحیح ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یوں ہے کہ ابن صیاد کی ایک آنکھ پھول گئی تھی ۔ میں نے اس سے پوچھا تیری آنکھ کب سے پھولی ؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا ۔ میں نے کہا تو جھوٹا ہے آنکھ تیری سر میں ہے اور تو کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا ۔ یہ سن کراس نے کہا اپنی آنکھ پر ہاتھ پھیرا! اور تین بار گدھے کی سی آواز نکالی ۔ میں نے اس کا ذکر ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ انہوں نے کہا تو اس سے بچا رہ کیوں نکہ میں نے لوگوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ دجال کو غصہ دلا یا جائے گا اس وقت وہ نکل پڑے گا ‘ پھر صحابہ کو اس میں شبہ ہی رہا کہ ابن صیاد دجال ہے یا نہیں ۔ امام احمد نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے نکالا اگر میں دس بار یہ قسم کھاؤں کہ ابن صیاد دجال ہے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ میں ایک بار یہ قسم کھاؤں کہ وہ دجال نہیں ہے ۔ ( ابن صیاد بھی ایک قسم کا دجال تھامگر دجال موعودہ ہے جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا ۔ ) اگر ابن صیاد دجال نہ وہوتا تو آپ ضرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر قسم کھانے سے منع فرماتے ۔ یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ اوپر کتاب الجنائز میں گزر چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی گردن مارنا چاہی تو آپ نے فرما یا اگر وہ دجال ہے تب تو تو اس کی گردن نہ مار سکے گا اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مارنا تیرے حق میں بہتر نہ ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے دجال ہونے میں شبہ تھا ‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قسم کھانے پر آپ نے انکار کیوں نہیں کیا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شاید پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے دجال ہونے میں شبہ ہو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ قسم کھائی اس وقت معلوم ہو گیا کہ وہی دجال ہے ۔ ابو داؤد نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا وہ قسم کھا تے تھے اور کہتے تھے بیشک ابن صیاد ہی مسیح دجال ہے اور ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اس لیے انکار ہو کہ ابن صیاد بھی ان تیس دجالوں میں کا ایک دجال ہو جس کے نکلنے کا ذکر دوسری حدیث میں ہے اس معنی کو اس کا دجال ہونا یقینی ہوا اور مسلم نے تمیم داری رضی اللہ عنہ کا قصہ نکالا کہ انہوں نے دجال کو ایک جزیرے میں دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قصہ نقل کے اور مسلم نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ ابن صیاد کا اور میرا مکہ تک ساتھ ہوا‘ وہ کہنے لگا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے مجھ کودجال سمجھتے ہیں ۔ کیا تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ دجال مکہ اور مدینہ میں نہیں جائے گا ۔ میں نے کہا بے شک سنا ہے ۔ کیا تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ اس کی اولاد نہ ہوگی ؟ میں نے کہا بیشک سنا ہے ۔ ابن صیاد نے کہا میری تو اولاد بھی ہوئی ہے اور میں مدینہ میں پیدا ہوا ‘ اب مکہ میں جا رہا ہوں ۔ اور ابو داؤد نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ابن صیاد واقعہ حرہ میں گم ہو گیا ۔ بعضوں نے کہا وہ مدینہ میں مرا اور لوگوں نے اس پر نماز پڑھی ۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن صیاد نے کہا البتہ یہ تو ہے کہ میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدا ہونے کی جگہ جانتا ہوں ‘ یہ بھی جانتا ہوں اب وہ جہاں ہے ۔ یہ سنتے ہی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ ارے کمبخت ! تیری تباہی ہو سارے دن یعنی تو نے پھر شبہ ڈال دیا ۔ ایک روایت میں عبد الرزاق کے بہ سند صحیح ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یوں ہے کہ ابن صیاد کی ایک آنکھ پھول گئی تھی ۔ میں نے اس سے پوچھا تیری آنکھ کب سے پھولی ؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا ۔ میں نے کہا تو جھوٹا ہے آنکھ تیری سر میں ہے اور تو کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا ۔ یہ سن کراس نے کہا اپنی آنکھ پر ہاتھ پھیرا! اور تین بار گدھے کی سی آواز نکالی ۔ میں نے اس کا ذکر ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ انہوں نے کہا تو اس سے بچا رہ کیوں نکہ میں نے لوگوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ دجال کو غصہ دلا یا جائے گا اس وقت وہ نکل پڑے گا ‘ پھر صحابہ کو اس میں شبہ ہی رہا کہ ابن صیاد دجال ہے یا نہیں ۔ امام احمد نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے نکالا اگر میں دس بار یہ قسم کھاؤں کہ ابن صیاد دجال ہے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ میں ایک بار یہ قسم کھاؤں کہ وہ دجال نہیں ہے ۔ ( ابن صیاد بھی ایک قسم کا دجال تھامگر دجال موعودہ ہے جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا ۔ )