كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ أَجْرِ الحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقَالَ هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : حاکم کا ثواب‘ جب کہ وہ اجتہاد کرے اور صحت پر ہو یا غلطی کر جائے ۔
ہم سے عبد اللہ بن یزید مقری مکی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا ‘ انہوں نے مجھ سے یزید بن عبد اللہ بن الہاد نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن ابراہیم بن الحارث نے ‘ ان سے بسر بن سعید نے ‘ ان سے عمر بن العاص کے مولیٰ ابو قیس نے ‘ ان سے عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ‘ آپ نے فرمایا کہ جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہوتو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے ( اجتہاد کا ) بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث ابو بکر بن عمر وبن حزم سے بیان کی تو انہوں نے بیاا کیا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اسی طرح بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عنہ نے بیان کیا ۔ اور عبد العزیز بن المطلب نے بیان کیا ‘ ان سے عبد اللہ بن ابی ابکر نے بیان کیا ‘ ان سے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان فرمایا ۔
تشریح :
یعنی مرسلاً روایت کی ‘ اس کے والد نے موصولاً روایت کی تھی ۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر مسئلہ میں حق ایک ہی امر ہوتا ہے لیکن مجتہد اگر غلطی کرے تو بھی اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا بلکہ اس کو اجر اور ثواب ملے گا ۔ یہ اس صورت میں ہے جب مجتہد جان بوجھ کر نص یا اجماع کا خلاف نہ کرے ورنہ گنہگار ہوگا اور اس کی عدالت جاتی رہے گی ۔ جیسے اوپر گزر چکا ۔ اس حدیث سے بعضوں نے یہ بھی نکا لا ہے کہ ہر قاضی مجتہد ہوننا چاہئیے ورنہ اس کی قضاءصحیح نہ ہوگی ۔ اہلحدیث کا یہی قول ہے اور یہی راجح ہے اور حنفیہ نے مقلد قاضی کی بھی قضا جائز رکھی ہے اور یہ کہا ہے کہ مقلد کو اپنے امام کے حکم کے برخلاف حکم دینا جائز نہیں مگر اس پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ آدمی کچھ مسائل میں مقلد ہو کچھ مسائل میں مجتہد ہو جس مسئلہ میں آدمی تمام دلائل کو اچھی طرح دیکھ لے اس میں وہ مجتہد ہو جاتا ہے اور جب اس مسئلہ میں مجتہد ہو گیا تو اب اس کو اس مسئلہ میں تقلید درست نہیں ہے بلکہ دلیل پر عمل کرنا چاہئیے ۔ یہی قول حق اور یہی صواب ہے اور جس نے اس کے خلاف کیا ہے کہ دلیل معلوم ہونے پر بھی اس کے خلاف اپنے امام کے قول پر جمے رہنا چاہیے اس کا قول نا معقول اور غلط ہے ۔ دلیل معلوم ہونے کے بعد دلیل کی پیروی کرنا ضروری ہے اور تقلید جائز نہیں اور اللہ تعالیٰ نے جا بجا قرآن میں ایسے مقلدوں کی مذمت کی ہے جو دلیل معلوم ہونے پر تقلید پر جمے رہتے تھے ۔ یہ صریح جہالت اور نا انصافی ہے ۔
یعنی مرسلاً روایت کی ‘ اس کے والد نے موصولاً روایت کی تھی ۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر مسئلہ میں حق ایک ہی امر ہوتا ہے لیکن مجتہد اگر غلطی کرے تو بھی اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا بلکہ اس کو اجر اور ثواب ملے گا ۔ یہ اس صورت میں ہے جب مجتہد جان بوجھ کر نص یا اجماع کا خلاف نہ کرے ورنہ گنہگار ہوگا اور اس کی عدالت جاتی رہے گی ۔ جیسے اوپر گزر چکا ۔ اس حدیث سے بعضوں نے یہ بھی نکا لا ہے کہ ہر قاضی مجتہد ہوننا چاہئیے ورنہ اس کی قضاءصحیح نہ ہوگی ۔ اہلحدیث کا یہی قول ہے اور یہی راجح ہے اور حنفیہ نے مقلد قاضی کی بھی قضا جائز رکھی ہے اور یہ کہا ہے کہ مقلد کو اپنے امام کے حکم کے برخلاف حکم دینا جائز نہیں مگر اس پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ آدمی کچھ مسائل میں مقلد ہو کچھ مسائل میں مجتہد ہو جس مسئلہ میں آدمی تمام دلائل کو اچھی طرح دیکھ لے اس میں وہ مجتہد ہو جاتا ہے اور جب اس مسئلہ میں مجتہد ہو گیا تو اب اس کو اس مسئلہ میں تقلید درست نہیں ہے بلکہ دلیل پر عمل کرنا چاہئیے ۔ یہی قول حق اور یہی صواب ہے اور جس نے اس کے خلاف کیا ہے کہ دلیل معلوم ہونے پر بھی اس کے خلاف اپنے امام کے قول پر جمے رہنا چاہیے اس کا قول نا معقول اور غلط ہے ۔ دلیل معلوم ہونے کے بعد دلیل کی پیروی کرنا ضروری ہے اور تقلید جائز نہیں اور اللہ تعالیٰ نے جا بجا قرآن میں ایسے مقلدوں کی مذمت کی ہے جو دلیل معلوم ہونے پر تقلید پر جمے رہتے تھے ۔ یہ صریح جہالت اور نا انصافی ہے ۔