‌صحيح البخاري - حدیث 7347

كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى {وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا} [الكهف: 54] صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ ح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ أَخْبَرَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ إِسْحَاقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُمْ أَلَا تُصَلُّونَ فَقَالَ عَلِيٌّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ لَهُ ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيْهِ شَيْئًا ثُمَّ سَمِعَهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُولُ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ يُقَالُ مَا أَتَاكَ لَيْلًا فَهُوَ طَارِقٌ وَيُقَالُ الطَّارِقُ النَّجْمُ وَ الثَّاقِبُ الْمُضِيءُ يُقَالُ أَثْقِبْ نَارَكَ لِلْمُوقِدِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7347

کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ کہف میں ” اور انسان سب سے زیادہ جھگڑا لو ہے “ ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ اور مجھ سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عتاب بن بشیر نے خبردی ‘ انہیں اسحاق ابن ابی راشد نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور فانہیں ان کے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے اور فاطمہ بنت رسول اللہ علیم السلام والصلوٰۃ کے گھر ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھا نا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا ۔ جو ںہی میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تو آپ پیٹھ موڑ کر واپس جانے لگے اور کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ” اور انسان بڑا ہی جھگڑالوں ہے “ اگر کوئی تمہارے پاس رات میں آئے تو ” طارق “ کہلائے گا اور قرآن میں جو ” والطارق “ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ستارہ ہے اور ” ثاقب “ بمعنی چمکتا ہوا ۔ عرب لوگ آگ جلانے والے سے کہتے ہیں ۔ اثقب نارک یعنی آگ روشن کر ۔ اس سے لفظ ثاقب ہے۔
تشریح : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب بطریق انکار کے نہیں دیا مگر ان سے نیند کی حالت میں یہ کلام نکل گیا ‘اس میں شک نہیں کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے تو اور زیادہ افضل ہوتا ۔ اگر چہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو کہا وہ بھی درست تھامگر کسی شخص کا جا گنا اور بیدار کرنا بھی اللہ ہی کا جگا نا اور بیدار کرنا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر کہ کہنا کہ جب اللہ ہم کو جگائے گا تو اٹھیں گے محض مجادلہ اور مکابرہ تھا ‘ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے ۔ اور تہجد کی نماز کچھ فرض نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مجبور کرتے ۔ دوسرے ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے بعد اٹھے ہوں اور تہجد کی نماز پڑھی ہو ۔ ( وحیدی ) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب بطریق انکار کے نہیں دیا مگر ان سے نیند کی حالت میں یہ کلام نکل گیا ‘اس میں شک نہیں کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے تو اور زیادہ افضل ہوتا ۔ اگر چہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو کہا وہ بھی درست تھامگر کسی شخص کا جا گنا اور بیدار کرنا بھی اللہ ہی کا جگا نا اور بیدار کرنا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر کہ کہنا کہ جب اللہ ہم کو جگائے گا تو اٹھیں گے محض مجادلہ اور مکابرہ تھا ‘ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے ۔ اور تہجد کی نماز کچھ فرض نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مجبور کرتے ۔ دوسرے ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے بعد اٹھے ہوں اور تہجد کی نماز پڑھی ہو ۔ ( وحیدی )