كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ إِيجَابِ التَّكْبِيرِ، وَافْتِتَاحِ الصَّلاَةِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا [ص:148]، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: تکبیر تحریمہ کا واجب ہونا
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوالزناد نے مجھ سے بیان کیا اعرج کے واسطہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
تشریح :
اس بارے میں بھی قدرے اختلاف ہے۔ بہتر یہی ہے کہ امام و مقتدی ہر دو سمع اللہ لمن حمدہ کہیں اور پھر ہر دو ربنا و لک الحمد کہیں۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ بذیل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبہ من الرکعۃ ثم یقول وہو قائم ربنا و لک الحمد فرماتے ہیں: ربنا لک الحمد بحذف الواو و فی روایۃ باثباتہا و قد تقدم ان الروایۃ بثبوت الواو ارجح و ہی عاطفۃ علی مقدر ای ربنا اطعناک و حمدناک و لک الحمدو قیل زائدۃ قال الاصمعی سالت ابا عمرو عنہا فقال زائہدۃ تقول العرب یعنی ہذا فیقول المخاطب نعم و ہو لک بدرہم فالواو زائدۃ و قیل ہی واو الحال قالہ ابن الاثیر و ضعف ما عداہ و فیہ ان التسمیع ذکر النہوض و الرفع و التحمید ذکر الاعتدال و استدل بہ علی انہ یشرع الجمیع بین التسمیع و التحمید لکل مصل من امام و منفرد و موتم اذ ہو حکایۃ لمطلق صلوٰتہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ( مرعاۃ، ج:1 ص: 559 ) ربنا لک الحمد حذف واؤ کے ساتھ اور بعض روایات میں اثبات واؤ کے ساتھ مروی ہے اور ترجیح اثبات واؤ کو ہی ہے جو واؤ عطف ہے اور معطوف علیہ مقدر ہے۔ یعنی اے رب ہمارے! ہم نے تیری اطاعت کی، تیری تعریف کی اور تعریف تیرے ہی لیے ہیں۔ بعض لوگوں نے محاورہ عرب کے مطابق اسے واؤ زائدہ بھی کہا ہے۔ بعض نے واؤ حال کے لیے مانا ہے، اس حدیث ابوہریرہ سے معلوم ہوا کہ لفظ سمع اللہ لمن حمدہ کہنا یہ رکوع میں جھکنے اور اس سے سر اٹھانے کا ذکر ہے۔ اور ربنا ولک الحمد کہنا یہ کھڑے ہو کر اعتدال پر آجانے کے وقت کا ذکر ہے۔ اسی لیے مشروع ہے کہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی سب ہی سمع اللہ لمن حمدہ پھر ربنا و لک الحمد کہیں۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح نقل کی گئی ہے اورآپ کا ارشاد ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس بارے میں بھی قدرے اختلاف ہے۔ بہتر یہی ہے کہ امام و مقتدی ہر دو سمع اللہ لمن حمدہ کہیں اور پھر ہر دو ربنا و لک الحمد کہیں۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ بذیل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبہ من الرکعۃ ثم یقول وہو قائم ربنا و لک الحمد فرماتے ہیں: ربنا لک الحمد بحذف الواو و فی روایۃ باثباتہا و قد تقدم ان الروایۃ بثبوت الواو ارجح و ہی عاطفۃ علی مقدر ای ربنا اطعناک و حمدناک و لک الحمدو قیل زائدۃ قال الاصمعی سالت ابا عمرو عنہا فقال زائہدۃ تقول العرب یعنی ہذا فیقول المخاطب نعم و ہو لک بدرہم فالواو زائدۃ و قیل ہی واو الحال قالہ ابن الاثیر و ضعف ما عداہ و فیہ ان التسمیع ذکر النہوض و الرفع و التحمید ذکر الاعتدال و استدل بہ علی انہ یشرع الجمیع بین التسمیع و التحمید لکل مصل من امام و منفرد و موتم اذ ہو حکایۃ لمطلق صلوٰتہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ( مرعاۃ، ج:1 ص: 559 ) ربنا لک الحمد حذف واؤ کے ساتھ اور بعض روایات میں اثبات واؤ کے ساتھ مروی ہے اور ترجیح اثبات واؤ کو ہی ہے جو واؤ عطف ہے اور معطوف علیہ مقدر ہے۔ یعنی اے رب ہمارے! ہم نے تیری اطاعت کی، تیری تعریف کی اور تعریف تیرے ہی لیے ہیں۔ بعض لوگوں نے محاورہ عرب کے مطابق اسے واؤ زائدہ بھی کہا ہے۔ بعض نے واؤ حال کے لیے مانا ہے، اس حدیث ابوہریرہ سے معلوم ہوا کہ لفظ سمع اللہ لمن حمدہ کہنا یہ رکوع میں جھکنے اور اس سے سر اٹھانے کا ذکر ہے۔ اور ربنا ولک الحمد کہنا یہ کھڑے ہو کر اعتدال پر آجانے کے وقت کا ذکر ہے۔ اسی لیے مشروع ہے کہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی سب ہی سمع اللہ لمن حمدہ پھر ربنا و لک الحمد کہیں۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح نقل کی گئی ہے اورآپ کا ارشاد ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔