‌صحيح البخاري - حدیث 7330

كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ ﷺوَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ الْجُعَيْدِ سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ كَانَ الصَّاعُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدًّا وَثُلُثًا بِمُدِّكُمْ الْيَوْمَ وَقَدْ زِيدَ فِيهِ سَمِعَ الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْجُعَيْدَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7330

کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا باب : آنحضرت ﷺنے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان ہم سے عمروبن زرارہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے قاسم بن مالک نے بیان کیا ‘ ان سے جعید نے ‘ انہوں نے سائب بن یزید سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صاع تمہارے وقت کی مد سے ایک مداور ایک تہائی مد کا ہوتا تھا ‘پھر صاع کی مقدار بڑھ گئی یعنی حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں وہ چار مد کا ہوگیا۔
تشریح : باب سے اس حدیث کی مطابقت اس طرح سے ہے کہ خواہ عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں اس مد کی مقدار بڑھ گئی ہو لیکن احکام شرعیہ میں جیسے صدقہ فطر وغیرہ ہے اسی صاع کا اعتبار رہا جو اہل مدینہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ۔ باب سے اس حدیث کی مطابقت اس طرح سے ہے کہ خواہ عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں اس مد کی مقدار بڑھ گئی ہو لیکن احکام شرعیہ میں جیسے صدقہ فطر وغیرہ ہے اسی صاع کا اعتبار رہا جو اہل مدینہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ۔