كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ ﷺوَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنْتُ أُقْرِئُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَلَمَّا كَانَ آخِرُ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بِمِنًى لَوْ شَهِدْتَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَاهُ رَجُلٌ قَالَ إِنَّ فُلَانًا يَقُولُ لَوْ مَاتَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَبَايَعْنَا فُلَانًا فَقَالَ عُمَرُ لَأَقُومَنَّ الْعَشِيَّةَ فَأُحَذِّرَ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ قُلْتُ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ يَغْلِبُونَ عَلَى مَجْلِسِكَ فَأَخَافُ أَنْ لَا يُنْزِلُوهَا عَلَى وَجْهِهَا فَيُطِيرُ بِهَا كُلُّ مُطِيرٍ فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ دَارَ الْهِجْرَةِ وَدَارَ السُّنَّةِ فَتَخْلُصَ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ فَيَحْفَظُوا مَقَالَتَكَ وَيُنْزِلُوهَا عَلَى وَجْهِهَا فَقَالَ وَاللَّهِ لَأَقُومَنَّ بِهِ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ فَكَانَ فِيمَا أُنْزِلَ آيَةُ الرَّجْمِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : آنحضرت ﷺنے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبد الواحد بن زیاد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معمربن راشد نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ نے ‘ ا ن سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ( قرآن مجید ) پڑھا یا کرتا تھا ۔ جب وہ آخری حج آیا جو عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا تو عبد الرحمن نے منیٰ میں مجھ سے کہا کاش تم امیر المؤمنین کو آج دیکھتے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ اگرامیر المؤ منین کا انتقال ہو جائے تو ہم فلاں سے بیعت کرلیں گے ۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آج سہ پہر کو کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سناؤں گا اور ان کو ڈراؤں کا جو ( عام مسلمانوں کے حق کو ) غصب کرنا چاہتے ہیں اور خد اپنی رائے سے امیر منتخب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہ کریں کیونکہ موسم حج میں ہر طرح کے ناواقف اور معمولی لوگ جمع ہو جاتے ہیں ۔ یہ سب کثرت سے آپ کی مجلس میں جمع ہو جائیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ آپ کی بات کا صحیح مطلب نہ سمجھ کر کچھ اور معنیٰ نہ کرلیں اور اسے منہ در منہ اڑاتے پھریں ۔ اس لیے ابھی توقف کیجئے ۔ جب آپ مدینے پہنچیں جو دار الہجرت اور دار السنہ ہے تو وہاں آپ کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ‘ مہاجرین وانصار خالص ایسے ہی لوگ ملیں گے وہ آپ کی بات کو یاد رکھیں گے اور اس کا مطلب بھی ٹھیک بیان کریں گے ۔ اس پر امیر المؤمنین نے کہا کہ واللہ ! میں مدینہ پہنچ کر جو پہلا خطبہ دوں گا اس میں اس کا بیان کروں گا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینے آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن دوپہر ڈھلے بر آمد ہوئے اور خطبہ سنا یا ۔ انہوں نے کہا اللہ پاک نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر قرآن اتارا ۔ اس قرآن میں رجم کی آیت بھی تھی ۔
تشریح :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خلافت سے متعلق فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ امر خلافت میں رائے دینے کا حق سارے مسلمانوں کو ہے ۔ پس جس پر اکثر لوگ اتفاق کرلیں اس سے بیعت کر لینا چاہیے۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ ہم فلاں سے بیعت کر لیں گے ۔ بیعت کر لینا کوئی کھیل تماشا نہیں ہے ‘ یہ مسلمانوں کے جمہور کا حق ہے ۔ خلیفۃ المسلمین کا انتخاب معمولی بات نہیں ہے ۔ اس روایت کی باب سے مطابقت یہ ہے کہ اس میں مدینہ کی فضیلت مذکور ہے کہ وہ دار السنۃ ہے ۔ کتاب وسنت کا گھر ہے تو وہاں کے علماءکا اجماع بہ نسبت اور شہروں کے زیادہ معتبر ہوگا ۔ حافظ نے کہا کہ صحابہ کا اجماع بھی حجت ہے یا نہیں اس میں بھی اختلاف ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خلافت سے متعلق فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ امر خلافت میں رائے دینے کا حق سارے مسلمانوں کو ہے ۔ پس جس پر اکثر لوگ اتفاق کرلیں اس سے بیعت کر لینا چاہیے۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ ہم فلاں سے بیعت کر لیں گے ۔ بیعت کر لینا کوئی کھیل تماشا نہیں ہے ‘ یہ مسلمانوں کے جمہور کا حق ہے ۔ خلیفۃ المسلمین کا انتخاب معمولی بات نہیں ہے ۔ اس روایت کی باب سے مطابقت یہ ہے کہ اس میں مدینہ کی فضیلت مذکور ہے کہ وہ دار السنۃ ہے ۔ کتاب وسنت کا گھر ہے تو وہاں کے علماءکا اجماع بہ نسبت اور شہروں کے زیادہ معتبر ہوگا ۔ حافظ نے کہا کہ صحابہ کا اجماع بھی حجت ہے یا نہیں اس میں بھی اختلاف ہے ۔