كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ ﷺوَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّلَمِيِّ أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : آنحضرت ﷺنے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ انہوں نے محمد بن منکدر سے ‘ انہوں نے جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ ایک گنوار ( قیس بن ابی حازم یا قیس بن حاز م یا اور کوئی ) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی ‘ پھر مدینہ میں اس کو تپ آنے لگی ۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ کہنے لگا یا رسول اللہ ! میری بیعت فسخ کردیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انکار کیا ۔ اس کے بعد وہ مدینہ سے نکل کر اپنے جنگل کو چلا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے جو اپنی میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور کھرے پاکیزہ مال کو رکھ لیتی ہے ۔
تشریح :
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ جب مدینہ سب شہروں سے افضل ہوا تو وہاں کے علماءکے اجماع ضرور معتبر ہوگا کیونکہ مدینہ میں برے اور بد کار لوگ ٹھہر ہی نہیں سکتے ۔ وہاں کے علماءسب سے اچھے ہی ہوں گے مگر یہ حکم حیات نبوی کے ساتھ تھا ۔ بعد میں بہت سے اکابر صحابہ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ جب مدینہ سب شہروں سے افضل ہوا تو وہاں کے علماءکے اجماع ضرور معتبر ہوگا کیونکہ مدینہ میں برے اور بد کار لوگ ٹھہر ہی نہیں سکتے ۔ وہاں کے علماءسب سے اچھے ہی ہوں گے مگر یہ حکم حیات نبوی کے ساتھ تھا ۔ بعد میں بہت سے اکابر صحابہ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔