كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺيُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الوَحْيُ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ يَقُولُ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَرِضْتُ فَجَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ فَأَفَقْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ فَقُلْتُ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي قَالَ فَمَا أَجَابَنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : آنحضرت ﷺ نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلا یا ۔
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ کہا میں نے محمد بن المنکدر سے سنا ‘ بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے ۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے ‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضوکا پانی مجھ پر چھڑکا ‘ اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا ای رسول اللہ ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں ‘ میں اپنے مال کا کیا کروںَ؟ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی ۔
تشریح :
حدیث سے آپ کا سکوت نکلا‘وحی اترنے تک لیکن یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتا ابن حبان کی روایت میں ہے‘ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سی جگہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں جانتا ۔ دار قطنی اور حاکم کی روایت میں ہے آپ نے فرمایا میں نہیں جانتا حدود گناہ کرنے والوں کا کفارہ ہیں یا نہیں ۔ مہلب نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعضے مشکل مقالات میں سکوت فرمایا لیکن آپ ہی نے اپنی امت کو قیاس کی تعلیم فرمائی ۔ ایک عورت سے فرمایا اگر تیرے باپ پر قرض ہو تا تو اداد کرتی یا نہیں ؟ تو اللہ کا حق ضرور ادا کرنا ہوگا۔ یہ عین قیاس ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بالکل قیاس نہ کرنا چاہیے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قیاس جو اصول شرعیہ کے خلاف ہو یا کسی دلیل شرعی پر مبنی نہ ہو صرف ایک خیالی بات ہو نہ کرنا چاہیے اور یہ مسئلہ تو علماءکا اجماعی ہے کہ نص موجود ہوتے ہوئے قیاس جائز نہیں اور جو شخص حدیث کا خلاف کرے حالانکہ وہ دوسری حدیث سے اس کا معارضہ نہ کرتا ہو نہ اس کے نسخ کا دعویٰ کرے نہ اس کی سند میں قدح کرے تو اس کی عدالت جاتی رہے گی وہ لوگوں کا امام کہاں ہو سکتا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ تو سر اور آنکھوں پر ہے اور صحابہ کے مختلف قولوں میں سے ہم کوئی قول چن لیں گے میں کہتا ہوں بس حنفیہ کو اپنے امام کے قول پر تو کم از کم چلنا چاہئیے۔
حدیث سے آپ کا سکوت نکلا‘وحی اترنے تک لیکن یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتا ابن حبان کی روایت میں ہے‘ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سی جگہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں جانتا ۔ دار قطنی اور حاکم کی روایت میں ہے آپ نے فرمایا میں نہیں جانتا حدود گناہ کرنے والوں کا کفارہ ہیں یا نہیں ۔ مہلب نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعضے مشکل مقالات میں سکوت فرمایا لیکن آپ ہی نے اپنی امت کو قیاس کی تعلیم فرمائی ۔ ایک عورت سے فرمایا اگر تیرے باپ پر قرض ہو تا تو اداد کرتی یا نہیں ؟ تو اللہ کا حق ضرور ادا کرنا ہوگا۔ یہ عین قیاس ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بالکل قیاس نہ کرنا چاہیے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قیاس جو اصول شرعیہ کے خلاف ہو یا کسی دلیل شرعی پر مبنی نہ ہو صرف ایک خیالی بات ہو نہ کرنا چاہیے اور یہ مسئلہ تو علماءکا اجماعی ہے کہ نص موجود ہوتے ہوئے قیاس جائز نہیں اور جو شخص حدیث کا خلاف کرے حالانکہ وہ دوسری حدیث سے اس کا معارضہ نہ کرتا ہو نہ اس کے نسخ کا دعویٰ کرے نہ اس کی سند میں قدح کرے تو اس کی عدالت جاتی رہے گی وہ لوگوں کا امام کہاں ہو سکتا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ تو سر اور آنکھوں پر ہے اور صحابہ کے مختلف قولوں میں سے ہم کوئی قول چن لیں گے میں کہتا ہوں بس حنفیہ کو اپنے امام کے قول پر تو کم از کم چلنا چاہئیے۔