كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ لَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ بَنِي تَمِيمٍ أَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ التَّمِيمِيِّ الْحَنْظَلِيِّ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِغَيْرِهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ إِنَّمَا أَرَدْتَ خِلَافِي فَقَالَ عُمَرُ مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ إِلَى قَوْلِهِ عَظِيمٌ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَكَانَ عُمَرُ بَعْدُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ إِذَا حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ حَدَّثَهُ كَأَخِي السِّرَارِ لَمْ يُسْمِعْهُ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن مروزی نے بیان کیا ، کہا ہم کو وکیع نے خبر نے دی ، انہیں نافع بن عمر نے ، ان سے ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ امت کے دوبہترین انسان قریب تھا کہ ہلاک ہوجاتے ( یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا ) جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب ( عمررضی اللہ عنہ ) نے بنی مجاشع میں سے اقرع بن حابس حنظلی رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنائے جانے کا مشورہ دیا ( توانہوں نے یہ درخواست کی کہ کسی کو ہمارا سردار بنا دیجئے ) اور دوسرے صاحب ( ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے دوسرے ( قعقاع بن سعد بن زرارہ ) کو بنائے جانے کا مشورہ دیا ۔ اس پر ابوبکر نے عمر سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری نیت آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آوازبلند ہوگئی ۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی ” اے لوگوں ! جو ایمان لے آئے ہو اپنی آواز کو بلند نہ کرو ، ، ارشاد خدا وندی ” عظیم ، ، تک ابن ملکیہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا کہتے تھے کہ عمر رضی اللہ نے اس آیت کے اترنے کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا اور ابن زبیر نے ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے ناناکا ذکر کیا وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرضکرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے حتیٰکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بات سنائی نہ دیتی توآپ دوبارہ پوچھتے کیا کہا ۔
تشریح :
اس حدیث کی مطابقت باب سے یہ ہے کہ اس میں جھگڑا کرنے کا ذکر ہے کیونکہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم دونوں تولیت کے باب میں میں جھگڑا کرہے تھے یعنی کس کو حاکم بنایا جائے ، یہ ایک علم کی بات تھی ۔
اس حدیث کی مطابقت باب سے یہ ہے کہ اس میں جھگڑا کرنے کا ذکر ہے کیونکہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم دونوں تولیت کے باب میں میں جھگڑا کرہے تھے یعنی کس کو حاکم بنایا جائے ، یہ ایک علم کی بات تھی ۔