‌صحيح البخاري - حدیث 7300

كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعَلَيْهِ سَيْفٌ فِيهِ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا عِنْدَنَا مِنْ كِتَابٍ يُقْرَأُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَنَشَرَهَا فَإِذَا فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَإِذَا فِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ عَيْرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهِ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهَا مَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7300

کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا باب : کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمارے والد نے ‘ کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا ‘کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا ۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا ۔ آپ نے فرمایا واللہ ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے ۔ پھر انہوں نے اسے کھو لا تو اس میں دیت میں دےئے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا ۔ ( کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دےئے جائیں ) اور اس میں یہ بھی تھاکہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے ۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات ( بدعت ) نکالے گا اس پر اللہ کی لغت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی ۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ( عہد یا امان ) ایک اس کے ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا‘ اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اورتمام لوگوں کی ۔ اللہ اس کی نہ فرض عبدت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاءکا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ‘ اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل ۔
تشریح : باب کا مطلب یہیں سے نکلا اور گو حدیث میںاس جگہ کی قید ہے مگر بدعت کا حکم ہر جگہ ایک ہے ۔ دوسری روایت میں یوں ہے ‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جو اللہ کے سوا اور کسی کی تعظیم کے لیے ذبح کرے اس پر اللہ نے لغت کی اور جو کوئی زمین کا نشان چرالے اس پر اللہ نے لعنت کی اور جو شخص اپنے باپ پر لعنت کرے اس پر اللہ نے لعنت کی اور جو شخص کسی بدعتی کو اپنے یہاں ٹھکانا دے اس پر اللہ نے لعنت کی ۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ شیعہ لوگ جو بہت سی کتابیں جناب امیر کی منسوب کرتے ہیں جیسے صحیفہ کا ملہ وغیرہ یا جناب امیر کا کوئی اور قرآن اس مروج قرآن کے سوا جانتے ہیں وہ جھوٹے ہیں ۔ اسی طرح سورہ علی جو بعض شیعوں نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے ۔ لعنۃ اللہ علی واضعہ ۔ البتہ بعضے روایتوں سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جناب امیر کے قرآن شریف کی تربیت دوسری طرح پر تھی یعنی باعتبار تاریخ نزول کے اور ایک تابعی کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن مجید موجودہ ہوتا تو ہم کو بہت فائدے حاصل ہوتے یعنی سورتوں کی تقدیم وتاخیر معلوم ہو جاتی ۔ باقی قرآن یہی تھا جواب مروج ہے ۔ اس سے زیادہ اس میں کوئی سورت نہ تھی ۔ باب کا مطلب یہیں سے نکلا اور گو حدیث میںاس جگہ کی قید ہے مگر بدعت کا حکم ہر جگہ ایک ہے ۔ دوسری روایت میں یوں ہے ‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جو اللہ کے سوا اور کسی کی تعظیم کے لیے ذبح کرے اس پر اللہ نے لغت کی اور جو کوئی زمین کا نشان چرالے اس پر اللہ نے لعنت کی اور جو شخص اپنے باپ پر لعنت کرے اس پر اللہ نے لعنت کی اور جو شخص کسی بدعتی کو اپنے یہاں ٹھکانا دے اس پر اللہ نے لعنت کی ۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ شیعہ لوگ جو بہت سی کتابیں جناب امیر کی منسوب کرتے ہیں جیسے صحیفہ کا ملہ وغیرہ یا جناب امیر کا کوئی اور قرآن اس مروج قرآن کے سوا جانتے ہیں وہ جھوٹے ہیں ۔ اسی طرح سورہ علی جو بعض شیعوں نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے ۔ لعنۃ اللہ علی واضعہ ۔ البتہ بعضے روایتوں سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جناب امیر کے قرآن شریف کی تربیت دوسری طرح پر تھی یعنی باعتبار تاریخ نزول کے اور ایک تابعی کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن مجید موجودہ ہوتا تو ہم کو بہت فائدے حاصل ہوتے یعنی سورتوں کی تقدیم وتاخیر معلوم ہو جاتی ۔ باقی قرآن یہی تھا جواب مروج ہے ۔ اس سے زیادہ اس میں کوئی سورت نہ تھی ۔