كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُوَاصِلُوا قَالُوا إِنَّكَ تُوَاصِلُ قَالَ إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي فَلَمْ يَنْتَهُوا عَنْ الْوِصَالِ قَالَ فَوَاصَلَ بِهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ أَوْ لَيْلَتَيْنِ ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَأَخَّرَ الْهِلَالُ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا
ہم سے عبد اللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشام نے ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابو سلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ تم صوم وصال ( افطار وسحر کے بغیر کئی دن کے روزے ) نہ رکھا کرو۔ صحابہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو صوم وصال رکھتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم جیسا نہیں ہوں ۔ میں رات گزارتا ہوں اورمیرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے لیکن لوگ صوم وصال سے نہیں رکے ۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے ساتھ دو دن یا دو راتوں میں صوم وصال کیا ‘ پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند نہ نظر آتا تو میں اور وصال کرتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انہیں سرزنش کرنا تھا ۔
تشریح :
گو یہ روایت باب کے مطابق نہیں ہے ‘ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ۔ اس میں صاف یوں مذکور ہے کہ میں اتنے طے کرتا کہ یہ سختی کرنے والے اپنی سختی چھوڑ دیتے ۔ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ ہر عبادت اور ریاضت اسی طرح دین کے سب کاموں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور آپ کی پیروی کرنا ضرور ہے ۔ اس میں زیادہ ثواب ہے باقی کسی بات میں غلو کرنا یا حد سے بڑھ جانا مثلاً ساری رات جاگتے رہنا یا ہمیشہ روزہ رکھنا یہ کچھ افضل نہیں ہے ۔ کیا تم نے وہ شعر نہیں سنا
بہ زہد وورع کوش وصدق وصفا
ولیکن بیفزائے برمصطفی
اسی طرح یہ جو بعضے مسلمانوں نے عادت کرلی ہے کہ ذرا سے مکروہ کام کو دیکھاتو اس کو حرام کہہ دیا یا سنت یا مستحب پر فرض واجب کی طرح سختی کی یا حرام یا مکروہ کام کو شرک قرار دے دیا اور مسلمانوں کو مشرک بنا دیا ‘ یہ طریقہ اچھا نہیں ہے اور غلو میں داخل ہے ۔ ولا تقولو اھذا حلال وھذا حرام لتفترواعلی اللہ الکذب۔
گو یہ روایت باب کے مطابق نہیں ہے ‘ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ۔ اس میں صاف یوں مذکور ہے کہ میں اتنے طے کرتا کہ یہ سختی کرنے والے اپنی سختی چھوڑ دیتے ۔ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ ہر عبادت اور ریاضت اسی طرح دین کے سب کاموں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور آپ کی پیروی کرنا ضرور ہے ۔ اس میں زیادہ ثواب ہے باقی کسی بات میں غلو کرنا یا حد سے بڑھ جانا مثلاً ساری رات جاگتے رہنا یا ہمیشہ روزہ رکھنا یہ کچھ افضل نہیں ہے ۔ کیا تم نے وہ شعر نہیں سنا
بہ زہد وورع کوش وصدق وصفا
ولیکن بیفزائے برمصطفی
اسی طرح یہ جو بعضے مسلمانوں نے عادت کرلی ہے کہ ذرا سے مکروہ کام کو دیکھاتو اس کو حرام کہہ دیا یا سنت یا مستحب پر فرض واجب کی طرح سختی کی یا حرام یا مکروہ کام کو شرک قرار دے دیا اور مسلمانوں کو مشرک بنا دیا ‘ یہ طریقہ اچھا نہیں ہے اور غلو میں داخل ہے ۔ ولا تقولو اھذا حلال وھذا حرام لتفترواعلی اللہ الکذب۔