‌صحيح البخاري - حدیث 7297

كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ يَعْنِيهِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ سَلُوهُ عَنْ الرُّوحِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا تَسْأَلُوهُ لَا يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَهُونَ فَقَامُوا إِلَيْهِ فَقَالُوا يَا أَبَا الْقَاسِمِ حَدِّثْنَا عَنْ الرُّوحِ فَقَامَ سَاعَةً يَنْظُرُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ فَتَأَخَّرْتُ عَنْهُ حَتَّى صَعِدَ الْوَحْيُ ثُمَّ قَالَ وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7297

کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا باب : بے فائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابراہیم نے ‘ ان سے علقمہ نے ‘ ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک شاخ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ یہودی ادھر سے گزرے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ لیکن دوسروں نے کہا کہ ان سے نہ پوچھو۔ کہیں ایسی بات نہ سنا دیں جو تمہیں نا پسند ہے ۔ آخر آپ کے پاس وہ لوگ آئے اور کہا‘ ابو القاسم! روح کے بارے میں ہمیں بتائےے َ؟ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے ۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا ‘ یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہو گیا ‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ” اور آپ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہئے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے ۔ “
تشریح : ان یہودیوں نے آپس میںیہ صلاح کی تھی کہ ان سے روح کا پوچھو ۔ اگر یہ روح کی کچھ حقیقت بیان کریں جب تو سمجھ جائیں گے کہ یہ حکم ہیں ‘ پیغمبر نہیں ہیں ۔ چونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی ۔ اگر یہ بھی بیان نہ کریں تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر ہیں ۔ اس پر بعضوں نے کہا نہ پوچھو‘ اس لیے کہ اگر انہوں نے بھی روح کی حقیقت بیان نہیں کی تو ان کی پیغمبری کا ایک اور ثبوت پیدا ہوگا اور تم کو نا گوار گزرے گا ۔ روح کی حقیقت میں آدم علیہ السلام سے لر تا ایں دم ہزارہا حکیموں نے غور کیا اور اب تک اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی ۔ اب امریکہ کے حکیم روح کے پیچھے پڑے ہیں لیکن ان کو بھی اب تک پوری حقیقت دریافت نہ ہو سکی ‘ پر اتنا تو معلوم ہو گیا کہ بیشک روح ایک جو ہر ہے جس کی صورت ذی روح کی صورت کی سی ہوتی ہے ۔ مثلاً آدمی کی روح اس کی صورت پر ‘ کتے کی روح اس کی صورت پر اور یہ جو ہر ایک لفطیف جو ہر ہے جس کا ہر جزو جسم حیوانی کے ہر جز میں سما جاتا ہے اور بوجہ شدت لطافت کے اس کو نہ پکڑ سکتے ہیں نہ بند کرسکتے ہیں ۔ روح کی لطافت اس درجہ ہے کہ شیشہ میں سے بھی پار ہو جاتی ہے حالانکہ ہوا اور پانی دوسرے اجسام لطیفہ اس میں سے نہیں نکل سکتے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے ۔ اس نے روح کو اپنی ذات مقدس کا ایک نمونہ اس دنیا میں رکھا ہے تا کہ جو لوگ صرف محسوسات کو مانتے ہیں وہ روح پر غورکر کے مجردات یعنی جنوں اور فرشتوں اور پروردگار کا بھی مانیں کیونکہ روح کے وجود سے انکار کرنا یہ ممکن نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ ساٹھ برس ادھر میں فلانے ملک میں گیا تھا میں نے یہ یہ کام کئے تھے حالانکہ اس ساٹھ برس میں اس کا بدل کئی بار بدل گیا ۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی جزو قائم نہیں رہا ‘ پھر وہ چیز کیا ہے جو نہیں بدلی اور جس پر میں کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آدمیوں کا عجزدکھانے کے لیے روح کی حقیقت پوشیدہ کردی ۔ پیغمبروں کو اتنا ہی بتلا یا گیا کہ وہ پروردگار کا امر یعنی حکم ہے ۔ مثلاً ایک آدمی کہیں کا حاکم ہوا تعلقدار یا تحصیلدار ڈپٹی کلکٹر پر اس کی موقوفی کا حکم بادشاہ پاس سے صادر ہو جائے ۔ دیکھو وہ شخص وہی رہتا ہے جو پہلے تھا اس کی کوئی چیز نہیں بدلتی لیکن موقوفی کے بعد اس کو تعلقدار یا تحصیلدار یا ڈپٹی کلکٹر نہیں کہتے ۔ آخر کیا چیز اس میں سے جاتی رہی‘ وہی حکم بادشاہ کا جاتا رہا ۔ اسی طرح روح بھی پروردگار کا ایک حکم ہے یعنی حیوۃ کی صفت کا ظہور ہے ۔ جہاں یہ حکم اٹھ گیا ‘ حیوان مرگیا اس کا جسم وغیرہ سب ویسا ہی رہتا ہے۔ ان یہودیوں نے آپس میںیہ صلاح کی تھی کہ ان سے روح کا پوچھو ۔ اگر یہ روح کی کچھ حقیقت بیان کریں جب تو سمجھ جائیں گے کہ یہ حکم ہیں ‘ پیغمبر نہیں ہیں ۔ چونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی ۔ اگر یہ بھی بیان نہ کریں تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر ہیں ۔ اس پر بعضوں نے کہا نہ پوچھو‘ اس لیے کہ اگر انہوں نے بھی روح کی حقیقت بیان نہیں کی تو ان کی پیغمبری کا ایک اور ثبوت پیدا ہوگا اور تم کو نا گوار گزرے گا ۔ روح کی حقیقت میں آدم علیہ السلام سے لر تا ایں دم ہزارہا حکیموں نے غور کیا اور اب تک اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی ۔ اب امریکہ کے حکیم روح کے پیچھے پڑے ہیں لیکن ان کو بھی اب تک پوری حقیقت دریافت نہ ہو سکی ‘ پر اتنا تو معلوم ہو گیا کہ بیشک روح ایک جو ہر ہے جس کی صورت ذی روح کی صورت کی سی ہوتی ہے ۔ مثلاً آدمی کی روح اس کی صورت پر ‘ کتے کی روح اس کی صورت پر اور یہ جو ہر ایک لفطیف جو ہر ہے جس کا ہر جزو جسم حیوانی کے ہر جز میں سما جاتا ہے اور بوجہ شدت لطافت کے اس کو نہ پکڑ سکتے ہیں نہ بند کرسکتے ہیں ۔ روح کی لطافت اس درجہ ہے کہ شیشہ میں سے بھی پار ہو جاتی ہے حالانکہ ہوا اور پانی دوسرے اجسام لطیفہ اس میں سے نہیں نکل سکتے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے ۔ اس نے روح کو اپنی ذات مقدس کا ایک نمونہ اس دنیا میں رکھا ہے تا کہ جو لوگ صرف محسوسات کو مانتے ہیں وہ روح پر غورکر کے مجردات یعنی جنوں اور فرشتوں اور پروردگار کا بھی مانیں کیونکہ روح کے وجود سے انکار کرنا یہ ممکن نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ ساٹھ برس ادھر میں فلانے ملک میں گیا تھا میں نے یہ یہ کام کئے تھے حالانکہ اس ساٹھ برس میں اس کا بدل کئی بار بدل گیا ۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی جزو قائم نہیں رہا ‘ پھر وہ چیز کیا ہے جو نہیں بدلی اور جس پر میں کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آدمیوں کا عجزدکھانے کے لیے روح کی حقیقت پوشیدہ کردی ۔ پیغمبروں کو اتنا ہی بتلا یا گیا کہ وہ پروردگار کا امر یعنی حکم ہے ۔ مثلاً ایک آدمی کہیں کا حاکم ہوا تعلقدار یا تحصیلدار ڈپٹی کلکٹر پر اس کی موقوفی کا حکم بادشاہ پاس سے صادر ہو جائے ۔ دیکھو وہ شخص وہی رہتا ہے جو پہلے تھا اس کی کوئی چیز نہیں بدلتی لیکن موقوفی کے بعد اس کو تعلقدار یا تحصیلدار یا ڈپٹی کلکٹر نہیں کہتے ۔ آخر کیا چیز اس میں سے جاتی رہی‘ وہی حکم بادشاہ کا جاتا رہا ۔ اسی طرح روح بھی پروردگار کا ایک حکم ہے یعنی حیوۃ کی صفت کا ظہور ہے ۔ جہاں یہ حکم اٹھ گیا ‘ حیوان مرگیا اس کا جسم وغیرہ سب ویسا ہی رہتا ہے۔