كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ يَعْنِيهِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ ح و حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ وَذَكَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُورًا عِظَامًا ثُمَّ قَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا قَالَ أَنَسٌ فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَقَالَ أَنَسٌ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ النَّارُ فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ قَالَ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ وَأَنَا أُصَلِّي فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا باب : بے فائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ( دوسری سند ) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے محمود نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی‘ پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور آپ نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہے تو سوال کرے ۔ آج مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں اس کا جواب دوں گا جب تک میں اپنی جگہ سے پر ہوں ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر لوگ بہت زیادہ رونے لگے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بار بار وہی فرماتے تھے کہ مجھ سے پوچھو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا ‘ میری جگہ کہاں ہے۔ ( جنت یا جہنم میں ) یا رسول اللہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ جہنم میں ۔ پھر عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا میرے والد کون ہیں یا رسول اللہ َ؟ فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں ۔ بیان کیا کہ پھر آپ مسلسل کہتے رہے کہ مجھ سے پوچھو ‘ مجھ سے پوچھو‘ آخر میں عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا ‘ ہم اللہ سے رب کی حیثیت سے ‘ اسلام سے دین کی حیثیت سے ‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول کی حیثیت سے راضی وخوش ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوو گئے ‘ پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے ‘ ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے کی گئی تھی ( یعنی ان کی تصویریں ) جب میں نماز پڑھ رہا تھا ‘ آج کی طرح میں نے خیرو شر کو نہیں دیکھا ۔