‌صحيح البخاري - حدیث 7286

كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صحيح حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ وَكَانَ مِنْ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجْلِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِابْنِ أَخِيهِ يَا ابْنَ أَخِي هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الْأَمِيرِ فَتَسْتَأْذِنَ لِي عَلَيْهِ قَالَ سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَاسْتَأْذَنَ لِعُيَيْنَةَ فَلَمَّا دَخَلَ قَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ وَمَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّى هَمَّ بِأَنْ يَقَعَ بِهِ فَقَالَ الْحُرُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُذْ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنْ الْجَاهِلِينَ وَإِنَّ هَذَا مِنْ الْجَاهِلِينَ فَوَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلَاهَا عَلَيْهِ وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7286

کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا باب : نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنا مجھ سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ ان سے یونس بن یزید ایلی نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے ‘ ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عیینہ بن حذیفہ بن بدر مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے الحر بن قیس بن حصن کے یہاں قیام کیا ۔ الحر بن قیس ان لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے قریب رکھتے تھے ۔ قرآن مجید کے علماءعمر رضی اللہ عنہ کے شریک مجلس ومشورہ رہتے تھے ‘خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان ۔ پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے حر سے کہا ‘ بھتیجے ! کیا امیر المؤ منین کے یہاں کچھ رسوخ حاصل ہے کہ تم میرے لیے ان کے یہاں حاضری کی اجازت لے دو َ؟ انہو ں نے کہا کہ میں آپ کے لیے اجازت مانگوں گا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت چاہی ( اور آپ نے اجازت دی ) پھر جب عیینہ مجلس میں پہنچے تو کہا کہ اے ابن خطاب ! واللہ ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو ۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے ‘ یہاں تک کہ آپ نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کرلیا ۔ اتنے میں حضرت الحر نے کہا ‘ امیر المؤ منین ! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ” معاف کرنے کا طریقہ اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو “ اور یہ شخص جاہلوں میں سے ہے۔ پس واللہ ! عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ آیت انہوں نے تلاوت کی توآپ ٹھنڈے ہو گئے اور عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ اللہ کی کتاب پر فوراً عمل کرتے ۔
تشریح : یہ عیینہ بن حصن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسلمان ہو گیا تھا پھر جب طلیحہ اسدی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو عیینہ بھی اس کے معتقدوں میں شریک ہو گیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں طلیحہ پر مسلمانوں نے حملہ کیا تو وہ بھاگ گیا لیکن عیینہ قید ہو گیا ۔ اس کو مدینہ لے کر آئے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا توبہ کر۔ اس نے توبہ کی ۔ سبحان اللہ ! علم کی قدروانی جب ہوتی ہے جب بادشاہ اور رئیس عالموں کو مقرب رکھتے ہیں ۔ علم ایسی ہی چیز ہے کہ جو ان میں ہو یا بوڑھے میں ‘ ہر طرح اس سے افضلیت پیدا ہوتی ہے ۔ ایک جوان عالم درجہ اور مرتبہ میں اس سو برس کے بوڑھے سے کہیں زائد ہے جو کمبخت جاہل لٹھ ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں جہاں اور فضیلیتں جمع تھیں وہاں علم کی قدردانی بھی بدرجہ کمال ان میں تھی ۔ سبحان اللہ! خلافت ایسے لوگوں کو سزا وار ہے جو قرآن وحدیث کے ایسے تابع اور مطیع ہوں ۔ اب ان جاہلوں سے پوچھنا چاہیے کہ عیینہ بن حصن تو تمہارا ہی بھائی تھی پھر اس نے ایسی بد تمیزی کویں کی اگر ذرا بھی علم رکھتا ہو تا تو ایسی بے ادبی کی بات منہ سے نہ نکلتا ۔ حر بن قیس جو عالم تھے ‘ ان کی وجہ سے اس کی عزت بچ گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے وہ مار کھا تا کہ چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ۔ یہ عیینہ بن حصن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسلمان ہو گیا تھا پھر جب طلیحہ اسدی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو عیینہ بھی اس کے معتقدوں میں شریک ہو گیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں طلیحہ پر مسلمانوں نے حملہ کیا تو وہ بھاگ گیا لیکن عیینہ قید ہو گیا ۔ اس کو مدینہ لے کر آئے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا توبہ کر۔ اس نے توبہ کی ۔ سبحان اللہ ! علم کی قدروانی جب ہوتی ہے جب بادشاہ اور رئیس عالموں کو مقرب رکھتے ہیں ۔ علم ایسی ہی چیز ہے کہ جو ان میں ہو یا بوڑھے میں ‘ ہر طرح اس سے افضلیت پیدا ہوتی ہے ۔ ایک جوان عالم درجہ اور مرتبہ میں اس سو برس کے بوڑھے سے کہیں زائد ہے جو کمبخت جاہل لٹھ ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں جہاں اور فضیلیتں جمع تھیں وہاں علم کی قدردانی بھی بدرجہ کمال ان میں تھی ۔ سبحان اللہ! خلافت ایسے لوگوں کو سزا وار ہے جو قرآن وحدیث کے ایسے تابع اور مطیع ہوں ۔ اب ان جاہلوں سے پوچھنا چاہیے کہ عیینہ بن حصن تو تمہارا ہی بھائی تھی پھر اس نے ایسی بد تمیزی کویں کی اگر ذرا بھی علم رکھتا ہو تا تو ایسی بے ادبی کی بات منہ سے نہ نکلتا ۔ حر بن قیس جو عالم تھے ‘ ان کی وجہ سے اس کی عزت بچ گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے وہ مار کھا تا کہ چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ۔