كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ فَقَالَ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ فَقَالَ عُمَرُ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ قَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ عَنْ اللَّيْثِ عَنَاقًا وَهُوَ أَصَحُّ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنا
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے زہری نے ‘ انہیں عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے خبر دی ‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا یا گیا اور عرب کے کئی قبائل پھر گئے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کر لے کہ لا الہ الا اللہ تو میری طرف سے اس کامال اور اس کیجان محفوظ ہے ۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے ( مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے ) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے ‘ واللہ اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکارپر بھی جنگ کروں گا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر جو میں نے غور کیا مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں ۔ ابو بکیر اور عبد اللہ بن صالح نے لیث سے ” عنا قا “ ( بجائے عقلاً کہا یعنی بکری کا بچہ اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔
تشریح :
کیونکہ زکوٰۃ میں تو بکری کا بچہ تو آجاتا ہے مگر رسی زکوٰۃ میں نہیں دی جاتی ۔ بعضوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب محمد بن مسلمہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو وہ ہر شخص سے زکوٰۃ کے جانور باندھنے کے لیے رسی بھی لیتے ‘ اسی طرح تبعاً رسی بھی زکوٰۃ میں دی جاتی ۔
کیونکہ زکوٰۃ میں تو بکری کا بچہ تو آجاتا ہے مگر رسی زکوٰۃ میں نہیں دی جاتی ۔ بعضوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب محمد بن مسلمہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو وہ ہر شخص سے زکوٰۃ کے جانور باندھنے کے لیے رسی بھی لیتے ‘ اسی طرح تبعاً رسی بھی زکوٰۃ میں دی جاتی ۔